شاباش پاکستان کرکٹ ٹیم،فتوحات کا سلسلہ جاری رہے

شاباش پاکستان کرکٹ ٹیم،فتوحات کا سلسلہ جاری رہے
طاہر یاسین طاہر
کرکٹ چانس کا کھیلا سمجھتا ہے، مگر اس میں جیت کے چانس یوں ہی نہیں بنتے بلکہ اس کے لیے بھی محنت او رپلاننگ کرنا پڑتی ہے۔پاکستان کی کرکٹ ٹیم سینئیر کھلاڑیوں کی ریٹائرمنٹ کے بعداپنی نئی صف بندیوں میں مصروف ہے اور نئے ٹیلنٹ کی تلاش میں ہے۔ بے شک پاکستان سپر لیگ نے پاکستان کو اچھے اور جارحانہ کھلاڑی دیے مگر یہ سارا عمل طویل عرصے کا متقاضی ہے تا کہ نئے کھلاڑی ٹیم ڈسپلن اور کارکردگی میں تسلسل کے لیے دیگر سائنسی و فنی رہنمائی حاصل کر سکیں۔پاکستان ٹیم کے بارے یہ مشہور ہے کہ یہ ایک ایسی ٹیم ہے جو یک بیک اپنی کارکردگی کی بنا پر دنیا کوحیرت میں ڈال دیتی ہے۔ یہ ٹیم جب ہارنے پہ آئے تو دنیا کی کمزور ترین ٹیموں سے بھی شرمناک انداز میں ہار جاتی ہے اور جب کم بیک کرتی ہے تو دنیا کی نمبر ون شمار کی جانے والی ٹیموں کو بھی عبرت ناک شکست سے دو چار کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔
مصباح الحق کی کپتانی میں ٹیم نے کئی ایک فتوحات سمیٹیں،مگر اصل مسئلہ ہمارا ون ڈے سکواڈ ہے۔حالیہ پی سی ایل ٹورنامنٹ میں پاکستان کے شرجیل خان،خالد لطیف،محمد عرفان اور دیگر کھلاڑیوں پر سپاٹ فکسنگ جوئے میں ملوث ہونے کے الزامات لگے، جو کسی بھی طرح پاکستان کرکٹ کے لیے نیک شگون نہیں، جبکہ اس سے قبل محمد عامر، سلمان بٹ اور محمد آصف سپاٹ فکسنگ کی بنا پر ٹیم سے باہر کر دیے گئے تھے۔ محمد عامر کی تو بوجہ ٹیم میں واپسی ممکن ہوئی مگر سلمان بٹ اور محمد آصف کے لیے پی سی پی کے دروازے نہ کھل سکے۔ظاہر ہے یہ چیزیں نہ صرف اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ کھلاڑیوں کی کارکردگی اور ان کا اعتماد بھی متاثر ہوتا ہے۔اس سب کے باوجود پاکستان ٹیم جب بھی میدان میں اترتی ہے تو اس سے کچھ غیر متوقع کی بہر حال امید ضرور لگی رہتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس وقت پاکستان کر کٹ ٹیم میں بڑے نام نہیں کھیل رہے ہیں۔
چیپمئینز ٹرافی کا آغاز ہوا تو وارم اپ میچ میں بنگلہ دیش نے پاکستان کے خلاف ایک بڑا سکور کیا ،مگر ٹیم میں شامل ہونے والے نئے آل راونڈر فہیم اشرف نے جارحانہ اننگ کی بدولت ،بجا طور پر وہ وارم اپ میچ بنگلہ دیش سے چھین لیا اور جس سےٹیم کا اعتماد بڑھا۔مگر بھارت کے خلاف لیگ میچ میں پاکستان کی کارکردگی متاثر کن نہ رہی اور ٹیم کو شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔اس کے بعد جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں پاکستان جیت گیا ۔بے شک اس میچ میں بارش نے پاکستان کے حق میں برس کر پاکستان کو ٹورنامنٹ میں باقی رہنے کی امید دی۔لیگ کے باقی میچر جیت کر پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ گیا، جہاں پاکستان کی ٹیم نے ناقابل شکست عالمی نمبر ون ٹیم انگلینڈ کو شکست دے کر فائنل میں رسائی حاصل کر لی۔
سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا۔بھارت نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی۔ٹیم میں شامل ہونے والے نئے اوپنر فخر زمان نے اظہر علی کے ساتھ مل کر جارحانہ بلے بازی کی اور ٹیم کو ایساسٹارٹ فراہم کیا جس کی بنا پر پاکستانی ٹیم ایک بڑا سکور کرنے میں کامیاب ہوئی۔100 رنز سے زائد کی اوپننگ پارٹنر شپ کے بعد جب پہلی وکٹ گری تو بعد میں آنے والے کھلاڑیوں نے بھی اس رنز ریٹ کو کم نہ ہونے دیا بلکہ بھارتی باولرز کی پٹائی جاری رہے۔
اگرچہ آخری تین چار اوورز میں پندرہ سے بیس رنز کم بنے مگر تین سو سے زیادہ رنز ہی مخالف ٹیم پر نفسیاتی برتری کا سبب بن جاتے ہیں۔بے شک شائقین کرکٹ کو بھارت کی طرف سے اچھی اور جارحانہ بیٹنگ دیکھنے کی بھی توقع تھی، کیونکہ بلاشبہ اس وقت بھارتی بیٹنگ لائن دنیا کی بہترین بیٹنگ لائن تصور کی جاتی ہے۔مگر محمد عامر نے پہلے اوور کی تیسری ہی گیند پر بھارتی جارحانہ بلے باز کو آوٹ کر کے پریشر بڑھا دیا۔ویرات کوہلی ،جو کہ دنیا کے بہترین بلے باز ہیں، جب وہ کھیلنے آئے تو محمد عامر نے انھیں بھی اپنی باولنگ سے پریشان کیا۔ ایک مرحلے پر پہلی سلپ میں ویرات کوہلی کا کیچ محمد اظر نے ڈراپ کر دیا تھا مگر اس سے اگلی ہی گیند پر ویرات کوہلی کو محمد عامر نے پوائنٹ میں کیچ کر ادیا، جبکہ محمد عامر نے اس سے اگلے اوور بھارت کی ایک اور وکٹ اڑا دی۔
بھارت پر بڑھتے ہوئے دباو کو پاکستانی باولرز اور فیلڈرز نے کسی بھی لمحے کم نہ ہونے دیااور پوری بھارتی ٹیم 158 رنز کے مجموعے پر ڈھیر ہو گئی۔ پاکستان یہ میچ 180 رنز کے بڑے مارجن سے جیت کر چیمپئین بن گیا۔پاکستان کی جیت پر وزیر اعظم،صدر مملکت،سیاسی قیادت اور آرمی چیف نے مبارکباد کا پیغام دیا اور انعامات کا اعلان بھی کیا گیا۔بے شک پاکستانی ٹیم اچھا کھیلی اورکھیل کے ہر شعبے میں بھارتی ٹیم کو زیر کیے رکھا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہماری ٹیم کی کمزوری ،کارگردگی میں تسلسل کا نہ ہونا ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ورلڈ کپ کے لیے ایک مضبوط ٹیم بنائیں تو بہتر یہی ہے کہ ان کھلاڑیوں ،جیسا کہ شعیب ملک، محمد حفیظ اور شہزاد احمد، ہیں ان سے جان چھڑالی جائے بشمول وہاب ریاض کے۔نئے لڑکوں کے ساتھ نئی ٹیم بنائی جائے۔فتوحات میں یہ تسلسل صرف اسی صورت ممکن ہے جب ٹیم سیاست سے پاک ہو گی اور ایک یونٹ بن کر کھیلے گی۔ہمیں ون یونٹ بن کر کھیلنے میں ابھی کئی مراحل سے گذرنا ہو گا۔میرٹ اور صرف میرٹ۔امید ہے پاکستانی ٹیم فہیم اشرف، حسن رضافخر زمان ،شاداب ،بابر اعظم اور ایسے ہی چند اور کھلاڑیوں کی مدد سے دنیا کی ایک بار پھر بہترین ٹیم بن جائے گا۔اصل مسئلہ ایک دو میچ جیتنا نہیں،بلکہ فاتحانہ کارکردگی میں تسلسل قائم رکھنا ہے اور پاکستانی ٹیم کو اسی طرف توجہ دینی چاہیے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply