جعلی عامل لوگوں کو زندہ جلا رہے ہیں،حکومت نوٹس لے

جعلی عامل لوگوں کو زندہ جلا رہے ہیں،حکومت نوٹس لے
طاہر یاسین طاہر
روحانیت اور دین کے نام پر جعل سازی دو مختلف چیزیں ہیں۔ہمارے ہاں مجموعی معاشرتی رویہ یہی ہے کہ ہم توہم پرست ہیں۔بیماری کی سائنسی وجوھات کے بجائے بیماری کو جنات و جادو کا کیا دھرا سمجھ کر پیسہ اور آبرو دونوں لٹا دیتے ہیں۔یہ امر واقعی ہے کہ جنات کا وجود ہے۔یہ بھی درست ہے کہ جادو ٹونہ بھی کیا جاتا ہے اور اس سے مفعول کو نقصان بھی پہنچتا ہے۔ایسے بے شمار واقعات ہیں جن کو بطور مثال ذکر کیا جا سکتا ہے۔لیکن ایسے واقعات جن میں واقعی کسی عورت،مرد،بچے یا بوڑھے پر جادو یا تعویذ اور جنات و پری کا اثر ہو بہت کم ہوتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کا علاج با عمل عامل کلام الہٰی سے کرتے ہیں اور بندے ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔
اصل رونا مگر یہ ہے کہ تعلیم کی کمی، معاشی مجبوریاں اور نسل در نسل چلنے والی توہم پرستی نے ہمارے سماج کو جدید فکری رویوں کے بجائے کاٹھ کے گھوڑے کا سوزر بنا دیا ہے۔حیرت انگیز طور پہ بعض پڑھے لکھے ارو اعلیٰ سول و عسکری بیوروکریٹ بھی پیر پرستی میں شخصیت پرستی کی حد تک داخل ہو جاتے ہیں۔جعلی عاملوں کے کارندوں نے دور دراز کے علاقوں تک اپنے عامل کی محیر العقول کہانیاں پھیلائی ہوتی ہیں۔ پبلسٹی کا یہ کام جدید طریقوں سے کیا جاتا ہے۔اس حوالے سے مکالمہ انشا للہ تحقیقی فیچر شائع کرے گا تا کہ سماج میں عقیدت کے نام پر پائی جانے والی اس بیماری کا علاج بھی ممکن ہو سکے۔ یہ ایسا ذہنی پولیو ہے جس کے لیے عقل کے چند قطرے بہت ضروری ہیں۔
ایک معتبر انگریزی اخبار کی ویب سائٹ کی خبر کے مطابق صوبہ پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان میں ایک نام نہاد روحانی عامل نے مبینہ طور پر جنات نکالنے کے عمل کے دوران ایک خاتون پر شدید تشدد کرتے ہوئے انھیں الٹا کر آگ لگادی، جس کے نتیجے میں خاتون جاں بحق ہوگئیں۔ڈیری غازی خان کی بی ڈویژن پولیس نے خاتون کے شوہر کی مدعیت میں عامل اور ان کے اکارندے کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا۔
یاد رہے کہ سجاد آباد کی رہائشی 31 سالہ ثریا بی بی کو عامل امان اللہ درخان کے پاس جنات نکالنے کے لیے لایا گیا۔خاتون کے اہلخانہ کے مطابقخاتون پر برے اثرات کا سایہ تھا۔پولیس کے مطابق عمل کے دوران عامل نے مبینہ طور پر خاتون پر شدید تشدد کیا اور انھیں الٹا لٹکا دیا، بعدازاں ان پر قابض برے اثرات نکالنے کے لیے انھیں آگ لگا دی۔خاتون کو غازی خان میڈیکل کالج کے ٹیچنگ ہسپتال کے ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہوگئیں۔پولیس نے عامل امان اللہ درخان اور ان کے اسسٹنٹ حمید موہانا کے خلاف پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 302/34 کے تحت قتل کا مقدمہ درج کرلیا۔ایسا ہی ایک واقعہ گذشتہ برس مارچ میں بھی پیش آیا تھا جب گجرانوالہ میں ایک جعلی عامل نے جنات نکالنےکے عمل کے دوران مبینہ طور پر ایک شخص کو زندہ جلا کر قتل کر دیا تھا۔گذشتہ برس ہی فروری میں شیخو پورہ میں ایک خاتون نے جعلی پیر کے کہنے پر اپنے 11 سالہ بیٹے کو مبینہ طور پر قتل کر دیا تھا۔
یہ ہوش ربا واقعات ایک ایسے معاشرے کا عکس پیش کر رہےہیںجہاں ،جادوگروں،عاملوں،تعویذ گروں اور بہروپیوں کا راج ہو۔مذکورہ واقعات کے علاوہ بھی ایسے کئی واقعات سامنے آتے رہتے ہیں،جہاں ہوس پرست عامل بے اولاد جوڑوں کو اولاد دینے کے بہانے ان کی آبرو سے کھیلتے رہتے ہیں۔راولپنڈی میں ایک عامل بڑا معروف ہوا تھا جسے پیر کاکی تاڑ کہا جاتا تھا۔ وہ جب اپنی محفل سجاتا تھا اور مریدین آتے تھے تو نوجوان لڑکیوں سے رقص کراتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ رقص کے ذریعے مریضوں کا علاج کرتا ہے۔ بعد میں پولیس کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔یہ امر درست ہے کہ جب ریاست اپنے حقیقی اور اصلی مقاصد سے اپنی توجہ ہٹا لیتی ہے تو معاشرے میں کبھی طالبان راج کرنے لگتے ہیں تو کبھی جعلی عامل لوگوں کی زندگیوں اور عزتوں سے کھیلنے لگتے ہیں۔ اس کی سادہ وجہ دین سے دوری،مولوی کے فہم کو ہی اسلام سمجھنا اور جدید فکری رویوں کو اختیار نہ کرنا ہے۔ یہ امر واقعی ہے کہ ہر گلی محلے میں کوئی نہ کوئی چھوٹا ،بڑا نام نہاد عامل بیٹھا ہوا لوگوں کی جمع پونجی سمیٹ رہا ہوتا ہے،بعض واقعات میںتو اس کمائی کا حصہ اوپر تک پہنچایا جاتا ہے۔اتوار کے سارے میگزین مختلف عامل بابوں کے اشتہارات سے بھرے ہوتے ہیں۔کیا حخومت کے لیے ان کو پکڑنا مشکل ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ بلکہ حکومت کی ترجیح ہی یہ نہیں۔حکومت اگر تعلیم اور صحت پہ توجہ دے تو بہت سی معاشرتی برائیاں از خود ہی رفتہ رفتہ ختم ہو جائیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو ایک ٹاسک فورس کے ذریعے ملک بھر میں پھیلے ہوئے جعلی اور نام نہاد عاملین کے خلاف ایک بھر پور آپریشن کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply