فدیہ اور کفارہُ صوم کا شرعی حکم

ان لوگوں کیلئے کیا شرعی حکم ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت کھو بیٹھے ہیں چاہے بڑھاپے کے ضعف کے سبب یا کسی ایسی شدید اور خطرناک بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے جو روزہ رکھنے میں حائل ہو , یعنی اگر اس بیماری کی حالت میں روزہ رکھا جائے تو بیماری اور تکلیف میں اضافہ ہونے کا واضح خدشہ ہو . صاف ظاہر ہے کہ اس کا تعین مریض خود نہیں کر سکتا بلکہ ایک ماہر معالج ہی کر سکتا ہے .
ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن حکیم نے نص صریح کے ذریعے یہ فرمایا کہ وہ روزہ نہ رکھیں بلکہ اس کے بدلے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دے دیں .
سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے .
ُاَيَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ ۚ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّـذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٝ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ۖ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْـرًا فَهُوَ خَيْـرٌ لَّـهٝ ۚ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْـرٌ لَّكُمْ ۖ اِنْ كُنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ (184)
گنتی کے چند روز، پھر جو کوئی تم میں سے بیمار یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کر لے، اور ان پر جو اس کی طاقت رکھتے ہیں فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا، پھر جو کوئی خوشی سے نیکی کرے تو وہ اس کے لیےبہتر ہے، اور روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔

یہاں بعض اہل علم نے ہر روزے کے عوض ایک وقت کا کھانا مراد لیا ہے اور اکثر نے یہاں ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا مراد لیا ہے . قرین قیاس دو وقت کا کھانا ہی ہے کیونکہ یہ فدیہ رمضان میں ادا کرنے کا حکم ہے تو اس سے مراد سحری اور افطاری دونوں ہوں گے . ” فد یة طعام مسکین” سے مراد یہ کسی نے بھی نہیں لیا کہ اس کھانے کا معیار وہ ہو جو وہ مسکین عام طور پر کھاتا ہے بلکہ اس سے مراد یہ لیا گیا ہے کہ فدیہ کے طور پر دیا جانے والا کھانا فدیہ دینے والے کے معیار کے مطابق ہو گا , یعنی اس سے مراد وہ کھانا ہو گا جو فدیہ دینے والا عام طور پر کھاتا ہے . لہذا اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس کا تعین فدیہ دینے والے نے خود انفرادی طور پر کرنا ہے . یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ فدیہ کی ایک مقدار مقرر کرنا محال ہے . پس یہ ہر فدیہ دینے والے کیلئے اس کے انفرادی معیار کے مطابق کم و بیش ہو سکتی ہے .

اس قدر فدیہ ادا کرنے کے بعد شرعی تقاضہ پورا ہو جاتا ہے لیکن اللہ رب العزت نے اس میں اضافے کی ترغیب بھی دی ہے . پس جو اس میں اضافہ کرے گا یہ اس کے اپنے لئے ہی بہتر ہو گا . اس کا مطلب یہ ہوا کہ فدیہ میں جتنا بھی اضافہ کر لیا جائے وہ اسی قدر باعث ِخیر ہے . یعنی فقہی اعتبار سے یہ مستحب ہوا . اگر فدیہ دینے والا اضافہ کرے گا تو وہ اس کیلئے موجب ِخیر ہو گا لیکن اگر وہ اضافہ نہیں کرے گا اور اپنے معیار کے مطابق طعام مسکین بطور فدیہ دینے پر اکتفا کرے گا تو اس کے اوپر کوئی گناہ نہیں ہو گا بلکہ شرعی تقاضہ پورا ہو جائے گا . اس سے یہ بات مزید واضح ہوئی کہ فدیہ کی مقدار کا تعلق ہر فدیہ دینے والے پر انفرادی طور پر منحصر ہے , کیونکہ اس میں اضافہ ہر فدیہ دینے والا اپنے ظرف جذبے اور ذوق و شوق کے پیش نظر کرے گا اور جتنا اضافہ کرے گا اس کیلئے اتنا ہی موجب ِخیر و برکت ہو گا .

اس وضاحت کے ساتھ ہمیں یہ مسئلہ فدیہ دینے والے پر چھوڑ دینا چاہئے اور روزہ رکھ سکنے کے متحمل نہ ہونے والے پر واجب فدیہ کو صدقہُ فطر پر قیاس کرتے ہوئے مختلف اجناس کی مطلوبہ مقدار کی مروجہ قیمتوں کے مطابق ان کی متفاوت رقوم کا تعین نہیں کرنا چاہئیے , جیسا کہ بعض اہل ِ علم اپنے فتاویٰ کی صورت میں ہر سال کرتے ہیں . ان فتاویٰ میں فدیہ 3000 سے لیکر 48,000 تک اور روزہ عمدا توڑنے کا کفارہ 6000 سے شروع ہو کر 96000 ہزار تک جا پہنچتا ہے . اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صدقہ ُ فطر کے لئے تو مختلف اجناس اور ان کی مقدار بعض روایات میں بیان کی گئی ہیں لیکن فدیہ کیلئے انتیس یا تیس یوم کیلئے دو وقت کے کھانے کا تعین خود شارع نے کر دیا ہے . اسی طرح بلا عذر شرعی روزہ توڑ دینے کے کفارہ کا تعین بھی خود شارع نے کر دیا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی اس روایت میں مذکور ہے .
ابوہریرہؓ کی حدیث میں ہے:
بینما نحن جلوس عند النبي ! إذا جاءہ رجل فقال: یا رسول اﷲ ھلکت، قال: (ما لك؟) قال: وقعتُ علی امرأتي وأنا صائم، فقال رسول اﷲ !: (ھل تجد رقبة تعتقھا؟) قال لا، قال:(فھل تستطیع أن تصوم شھرین متتابعین) قال: لا، قال:(فھل تجد إطعام ستین مسکینا؟) قال لا…
“ہم نبی اکرم ﷺکے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں ہلاک ہوگیا، آپؐ نے کہا: کیا ہوگیا تمہیں ؟ اس نے کہا: میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرلیا، آپ نے کہا: کیا تم غلام آزاد کرسکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں ، آپؐ نے کہا : کیا تم مسلسل دوماہ روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا نہیں ، آپؐ نے کہا: کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اس نے کہا : نہیں .
بخاری شریف حدیث رقم 1936

بخاری شریف کی حدیث کا وہ حصہ جو نفس مسئلہ پر دلالت کرتا ہے اسے اوپر نقل کر دیا ہے . اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ روزہ توڑنے والے کے کفارہ کی تین صورتیں خود زبان ِ نبوت نے متعین فرما دیں .
1. غلام آزاد کرنا ( یہ قابل ِ عمل نہیں رہا )
2. متواتر 60 روزے رکھنا
3 . ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا
اسی طرح کا معاملہ قسم توڑنے والے کا ہے کہ اس کے ذمے کیا کفارہ ہے تو اس کا بھی تعین نص صریح نے کر دیا ہے . سورہ مائدہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے .
خلَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّـٰهُ بِاللَّغْوِ فِىٓ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّـمُ الْاَيْمَانَ ۖ فَكَـفَّارَتُهٝٓ اِطْعَامُ عَشَـرَةِ مَسَاكِيْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِيْكُمْ اَوْ كِسْوَتُـهُـمْ اَوْ تَحْرِيْرُ رَقَـبَةٍ ۖ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ اَيَّامٍ ۚ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَيْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُـمْ ۚ وَاحْفَظُوٓا اَيْمَانَكُمْ ۚ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّـٰهُ لَكُمْ اٰيَاتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُـرُوْنَ (89)
اللہ تمہیں تمہاری فضول قسموں پر نہیں پکڑتا لیکن ان قسموں پر پکڑتا ہے جن پر تم اپنے آپ کو پابند کرو، سو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو اوسط درجہ کا کھانا دینا ہے (ایسا کھانا) جو تم اپنے گھر والوں کو دیتے ہو یا دس مسکینوں کو کپڑا پہنانا یا گردن (غلام) آزاد کرنا، پھر جو شخص یہ نہ کر پائے تو پھر تین دن کے روزے رکھنے ہیں، یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھاؤ، اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو، اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنے حکم بیان کرتا ہے تاکہ تم شکر کرو۔
لہذا ان تینوں صورتوں پر نہ تو کسی قیاس کی ضرورت ہے اور نہ ہی گنجائش . ان فتاویٰ کا سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ان میں فدیہ اور کفارہ کی بیان کردہ ان رقوم کو کم سے کم قرار دیا گیا ہے یعنی ان میں بھی تطوع ( اضافہ ) کی گنجائش موجود ہے .

Advertisements
julia rana solicitors

اس کے علاوہ یہ طریقہ اس منشائے الہی کے بھی خلاف نظر آتا ہے جس کا اظہار اللہ رب العزت نے روزہ سے متعلق احکام کو بیان کرنے کے بعد ان الفاظ میں فرمایا .۔۔۔یرید اللہ بکم العسر ولا یرید بکم الیسر “اللہ تمہارے ساتھ سہولت کا ارادہ رکھتا ہے نہ کہ تنگی کا” .ہمارے ناقص فہم کے مطابق علمائے کرام کو ان مسائل کی درست تفہیم و تشریح پر اکتفا کرنا چاہئے نہ کہ رقوم کو فتویٰ کا موضوع بنانا چاہئے . جس طرح بے جا آسانیاں پیدا کرنا درست نہیں , اسی طرح اہل ِ اسلام کیلئے بے جا مشکلات پیدا کرنا بھی نامناسب بات ہے . ایسے فتاویٰ سے لوگوں میں دین سے نفور اور بے زاری پیدا ہونے کا اندیشہ ہے .

Facebook Comments

محمدخلیل الرحمن
بندہ دین کا ایک طالب علم ہے اور اسی حیثیت میں کچھ نہ کچھ لکھتا پڑھتا رہتا رہا ہے ۔ ایک ماہنامہ کا مدیر اعلیٰ ہے جس کا نام سوئے حجاز ہے ۔ یہ گذشتہ بائیس سال سے لاہور سے شائع ہو رہا ہے ۔ جامعہ اسلامیہ لاہور کا ناظم اعلیٰ ہے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا ممبر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply