پارسائی کا خمار

پارسائی کے خمار کا آغاز ابلیس نے کیا ۔جب خدا کی تخلیق کو اپنی پارسائی کے خمار میں مبتلا ہو کر سجدہ کرنے سے انکاری ہو گیا۔خدا نے ہر شخص کے لیے رہنماء اصول طے کر دیئے ہیں ۔انہی اصولوں کے مطابق جو شخص زندگی گزارتا ہے تو نتیجے کے طور پر فلاح اور ذاتی منفعت سے نوازا جاتا ہے۔خالق کی ذات تو بے نیاز ہے۔انسان جو بھی نیکی کرتا ہے اپنی ذاتی منفعت کی خاطر کرتا ہے مگر اللہ تعالی کی شان بے نیازی کے سامنے انسان کی پارسائی کی حیثیت رائی کے دانے کے برابر نہیں ہے۔جب انسان اپنے لیے کی گئی نیکی پر گھمنڈ کرنے لگتاہے تو اس پر خمار کی کفیت طاری ہو جاتی ہے اور تکبر کا شکار ہو کر دوسرے کی تحقیر کرنے میں اس کو تسکین ملتی ہے۔جب کہ خدائے بزرگ وبرتر کے نزدیک انسان کا یہ عمل انتہائی نا پسندیدہ ہے۔

ہم اگر غور کریں کہ آج ہمارے معاشرے میں پارسائی کا خمار عام چلن بن چکا ہے۔پارسائی کے خمار میں مبتلا ہو کر انسان اپنے علاوہ دوسروں کو گمراہ تصور کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ہمہ وقت بد گمانیوں کا شکار ہو کر دوسرے انسانوں کو کمتر اور حقیر سمجھتا ہے۔احساس بر تری اس کے وجود کا حصہ بن جاتی ہے۔چونکہ پارسائی کا خمار شیطانی وصف ہے لہذا ایسے وصف کو اپنا کر معاشرے میں بہتری کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا انتہائی مشکل امر ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ پارسائی کے زعم میں مبتلا لوگوں نے خدائی کے دعوے کیے اور زمین پر فساد برپا کیے اور نسل انسانی کا خون بے دردی سے بہایا۔اللہ تعالی نے عاجزی کو پسند کیا ہے۔ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں بدقسمتی سے اکثریت اس رویہ کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ہر دوسرا بندہ کسی دوسرے شخص کے بارے میں بدگمان ہے۔آج کل تو کسی کی موت پر جنازے سے پہلے چند لوگ مرنے والے شخص کے متعلق چہ مگوئیاں شروع کر دیتے ہیں اور جنت اور دوزخ کے بارے رائے دینی شروع کر دیتے ہیں ۔

ابھی ایک سال پہلے کی بات ہے امجد صابری جو کہ اعلی تعلیم یافتہ اور معروف قوال تھے ۔قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوئے۔بلاشبہ ایک انسانی جان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔اسلام نے انسانی جان کی حرمت لازم قرار دی ہے لیکن امجد صابری کے ناحق قتل پر ہمارے پارسائی کے مرض میں مبتلا لوگ زبان سے شعلے اگلتے رہے۔لوگوں نے مراثی اور ڈوم اور دو ٹکے کے گوئیے جیسے الفاظ مرحوم کے لیے استعمال کیے۔پارسائی کے خمار میں کسی نے فتویٰ دیا کہ شہید نہ کہا جائے۔ پارسائی کے خمار کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں مبتلا شخص خبط عظمت کا شکار ہو کر خود کو عقل کل سمجھنے لگتا ہے اور وہ فیصلے بھی صادر کرنے لگتاہے جو صرف اور صرف خدا کا اختیار ہے۔اسی پارسائی کے خمار نے ہی حال ہی میں مشال خان کو اذیت ناک موت سے دوچار کیا۔اک معصوم انسان پارسائی کی بھینٹ چڑھ گیا۔مشعال خان کا بوڑھا ناتواں باپ کس کے ہاتھ پہ اپنے بے گناہ بیٹے کا خون تلاش کرے اور پارسائی کے خمار میں مبتلا ء ان شیطانوں کی فنکاریاں تو ملاحظہ کریں کہ اک نام نہاد پارسا درندہ انتہائی ڈھٹائی سے اخبار میں بیان دیتا ہے کہ قاتلوں نے رسول پاک کی محبت میں یہ عمل کیا ہے۔اسی پارسائی کے خبط میں اس جنت جیسی دنیا کو دوزخ میں تبدیل کر کے رکھ دیا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جبکہ خدا کے پیغمبر نبی رحمت اپنی راہ میں کانٹے بچھانے والوں کے لیے اپنا دست دعا ان کی فلاح کے لیے اللہ تعالی کی بارگاہ میں اٹھا کر فرماتے رہے ۔ان کو ہدایت عطا فرما۔کائنات کے تاجدار دن رات عاجزی و انکساری کے مظاہر پیش کرتے رہے۔پارسائی کے خمار کو اتار کر عاجزی اختیار کر کے داعی بن کر معاشرے کی اصلاح ممکن ہے۔تحقیر اور تذلیل کے ذریعے فلاح کا حصول نا ممکن ہے۔انسان کی نیکی بدی کا حساب خدا کا اختیار ہے۔نیکی کر کے اپنے آپ کو بر تر اور دوسرے کو کمتر سمجھنے کی روش فساد فی الارض کا باعث بنتی ہے۔پارسائی کے خمار سے خود احتسابی کے ذریعے نجات حاصل کر کے ہی ابلیس کو شکست دی جا سکتی ہے۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply