میرے خیالوں کی ہمسفر۔۔۔۔۔  فوزیہ قریشی

آج بھی جب وہ یاد آتی ہے تونجانے کیوں؟میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ دل کے موسم پر ویرانی کی بدلی سی چھا جاتی ہے۔۔مجھے تو اس سے کبھی محبت تھی ہی نہیں۔۔۔۔۔پھر ایسا کیا ہوا؟
کب،کیوں اور کیسے ہوگیا؟ یہی بات میرے لئے حیران کُن تھی۔وہ جب مجھ سے پوچھتی، علی!! تم نے کبھی محبت کی لذت کو محسوس کیا ہے؟تو میں کہتا نہیں نازلی، تم بتاؤ کیسی ہوتی ہے یہ لذت ؟
وہ کِھلکھاتے اور اِٹھلاتے ہوئے میرے گرد طواف کرتے ہوئے کہتی ۔ “تم نہیں سمجھ سکتے۔”
کیوں جی ؟ میں کیوں نہیں سمجھ سکتا ؟وہ اک آہ بھرتے ہوئے مجھ سے گویا ہوتی۔ “محبت کا احساس بیان سے باہر ہے میرے دوست۔۔۔۔ مجھے ہر وہ چیز اب اچھی لگتی ہے جو کبھی بُری لگتی تھی۔۔۔قدرت کے رنگ اور بھی حسین دکھائی  دیتے ہیں۔۔۔  فطرت کے رنگ میرے اندر عجیب سی ہلچل مچا دیتے ہیں۔تتلی،، پھول جگنو،کوئل،بادل،بارش ، برکھا،بجلی اور کائنات کے سبھی رنگوں پر بہت پیارآتا  ہے۔
علی!!     محبت کا عکس  اِن فطرت کے نظاروں میں دِکھنے لگا ہے۔۔۔بلا وجہ چلتے چلتے رُک سی جاتی ہوں۔۔۔۔۔ راستے میں بکری کا بچہ اٹھکیلیاں   کر رہا ہو تو اسے اپنی بانہوں میں بھر لیتی ہوں۔۔۔۔۔ جی بھر کر پیار کرتی ہوں۔۔۔۔وہ جان چھڑانا چاہتا ہے مجھ سے اور میں اس کی بے چینی کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتی ہوں۔
ہائے! کتنا بولتی تھی نا وہ،   تیز گام کی سپیڈ میں بولے ہی چلی جاتی ۔۔۔۔۔۔ یک دم  بے وجہ سی کسی بات پر ٹھہر جاتی۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی ایک چھوٹی سی  بات پرحیران ہوتی تو کبھی بڑی سی بڑی بات کو بھی اگنور کر جاتی۔  کتنی دیوانی، مستانی سی تھی وہ ۔لیکن! اب کیوں؟ مجھے اُس کے چہرے سے جھلکتی خوشی اپنے وجود میں محسوس ہوتی ہے۔؟
آہ !! میں جانتا ہوں کہ وہ نہیں ہے لیکن محبت کی کسک ،لذت کی چاشنی   جو کبھی نازلی کو محسوس ہوتی تھی اب میرے وجود میں ہلچل مچاتی ہے۔۔

رکھوالی ۔۔۔ ۔ قمر سبزواری/افسانہ
میرا دل ! یادوں کی بھینی بھینی کسک میں کچی ، ادھ سوکھی اور گیلی لکڑیوں کی طرح سُلگتا ہے۔ کالی  گھٹا میرے دل میں وسوسے ڈالتی ہے کہ وہ اب ضرور کسی اور کی ہوگئی ہوگی جبکہ میرا دل اس بات کی نفی کرتا ہے۔۔۔ نہیں وہ اپنے وجود کو کسی کے سُپرد نہیں کر سکتی ۔۔۔وہ تو صرف میری تھی۔۔صرف میری ۔
ہاں مجھے یاد ہے میں نے ہی تو دعا کی تھی ۔ اُس کی خاطر ۔وہ میری طرف جب حسرت بھری بے تاب نظروں سے دیکھتی کہ میں کچھ کہوں۔۔۔۔لیکن میں  کچھ ہوتا تو کہتا ناں؟
وہ کچھ سننا چاہتی تھی۔۔۔۔شائدمحبت کے چند بول۔جو میں نہ کہہ سکا۔۔
میں نے بارہا اپنے وجود کو اُس کی محبت کی مٹی سے گوندھنے کی کوشش کی لیکن جوں جوں گوندھنے کی کوشش کرتا وہ یکجا ہونے کے بجائے میرے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسل کر زمین پر پھیل جاتی۔ میں پھر سمیٹتا وہ پھر میرے ہاتھوں سے اپنا دامن چھڑا کر زمین پر ڈھیر ہوجاتی۔شائد میرے بدن کی مٹی اسے قبول کرنے کو تیار نہ تھی۔
لیکن آج کیوں؟    اُس کا نام میرے دل کے سیلن زدہ دروازے پر کُندہ ہے۔؟
میں ترس کھا کر کبھی کبھی خود کو اس کے محبت کے رنگوں سے آشنا کرنےکی کوشش کرتا ۔جب ناکام ہو جاتا تو اپنے مالک سے گڑ گڑا کر یہ دُعا مانگتا۔”اے میرے مالک، میرے دل میں بھی  محبت کا بیج بو دے یا اُس کے وجُود میں موجود  محبت بھرے تناور درخت کی جڑوں کو کسی اور سمت موڑ دے۔” پھر وہی ہوا میرے مالک نے میری دونوں دعائیں ایک ساتھ قبول کر لیں ۔  میرے میرے دل کے نہاں خانوں میں اُس کی محبت کا ننھا سا پودا اُگا دیا اورساتھ ہی اُس کے محبت بھرے  تناور درخت کی جڑوں کا رخ بھی کہیں اور موڑ دیا۔۔۔
وہ مجھ سے جواب مانگتی تھی۔۔۔۔۔۔ میرے پاس جواب ہوتا تو   دیتا نا۔ آج میرے پاس اس کا من پسند جواب ہے لیکن!!    وہ نہیں ہے۔۔۔۔
میں اسی کے انداز میں چیخ چیخ کر سب کو بتانا چاہتا ہوں۔۔ ۔ہاں تم ہی ہو، صرف تم ہی۔۔۔۔۔۔۔
لیکن تم کہاں ہو؟لوٹ آؤ ناں!

Advertisements
julia rana solicitors london

اردو افسانے کے موضوعات ‘1960 کے بعد۔۔۔ طارق چھتاری
اندر، باہر آگ لگی ہوئی ہے۔محبت کی آگ ۔۔طلب کی آگ،چاہت کی آگ۔۔کاش میں  وقت پر یہ بات سمجھ سکتا  ۔ وہ میری محبت کی دھیمی دھیمی آنچ میں جلتی رہی،سُلگتی رہی لیکن میں اس کی جلن ،تڑپ کو محسوس نہ کر پایا۔۔اگر  میں  اُس دن  اسے  روک لیتا تو آج وہ میری ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صرف میری۔۔۔۔۔۔
برسات کی وہ بھیگی شام    وہ اپنے پیاروں کو چھوڑ کر میرے پاس آئی تھی۔۔۔صرف اور صرف میری خاطر ۔۔۔۔۔لیکن !! میں نے اسے واپس جانے پر مجبور کیا ۔۔میں کس قدر بے رحم اور سنگدل ہوگیا تھا؟
وہ روتی رہی، منتیں کر تی رہی  کہ  اسے اپنا لوں۔ وہ  ایک  کونے میں بے ضرر شئے کی طرح پڑی رہے گی۔۔۔۔۔۔وہ صرف  میرا  نام  ہی تو  چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ باندی بن کر رہنے کے لئے بھی تیار تھی۔۔۔۔۔۔ اپنی ساری وفائیں مجھ پر نچھاور کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔لیکن !!   میں تو کسی اور ہی دنیا میں تھا ۔۔۔مجھے   پَل  بھر کے لئے بھی احساس نہ ہوا کہ وہ مجھے ٹوٹ کر چاہتی ہے۔
وہ میرے  سامنے کُر لاتی رہی، واسطے  دیتی رہی اور   میں بے حس بنا تماشا دیکھتا رہا۔ میری خاموشی، بے حسی اور بے رخی کی وہ تاب نہ لا سکی اور ہمیشہ کے لئے میری زندگی سے چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔ جاتے جاتے مجھے بہت کچھ سِکھا گئی۔۔۔۔۔اس کے وہ خوبصورت الفاظ آج بھی میرے دماغ میں ایک حشر برپا کر دیتے ہیں۔۔
میں کیسے بھول سکتا ہوں؟  وہ لمحے ، وہ ساعتیں۔۔۔۔۔۔۔وہ رو ئے جا رہی تھی اور اپنے مخملی ہاتھوں سے رُخسار پر گرنے والے ننھے ننھے موتیوں کو مسل رہی تھی ۔ اس کی زبان پر  یہی  الفاظ  تھے۔۔۔۔۔۔اے میرے دوست تمہیں میں بہت یاد آؤں گی۔۔۔۔ ایک دن۔۔۔۔۔ لیکن!!  تم مجھے پکارو گے بھی تو لوٹ کر نہ آسکوں گی کیونکہ میں تم سے بہت دور جا چکی ہونگی۔۔۔۔۔۔ اس جہان سے بھی دور ۔تمہارا میرا تعلق کبھی ختم نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ میرا ایمان ہے کہ”جہاں روح کا تعلق ہو وہاں ہجر و وصال ، حاصل و لاحاصل اور نفع و نقصان کے احساسات مٹ جاتے ہیں” ۔۔
وہ روح کا تعلق قائم کرکے میرے دل کی بنجر زمین میں محبت کا بیج بو کر مجھ سے ہمیشہ کے لئے دُور چلی گئی۔
آج صرف میں ہوں ، میری تنہائی اور میرے خیالوں کی  وہ حسین ہمسفر ۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply