قرآن اور حدیث کا باہمی ربط

حدیث کیا ہے ؟
اتنی بات تو کم و بیش سب ہی جانتے ہیں کہ قرآن پاک میں اللہ پاک نے عامۃ الناس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ صرف نبوت و رسالت سے روشناس کروایا ہے، بلکہ منصب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ مقام رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی توضیح فرمائی ہے۔ بلاشبہ نبوت و رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ایک عہدہ اور منصب ہونے کی وجہ سے ایمانیات سے متعلق ہیں، یعنی ماننے اور باور کرنے کی چیزیں ہیں۔ مگر قرآن نے منصب نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ مقام رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو واضح فرمایا ہے، دیکھیے درج ذیل آیات اور پھر ہر آیت کہ ضمن حاصل ہونے والے فوائد ۔ ۔
قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَO .
ترجمہ:- آپ فرما دیں کہ اﷲ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتاo
( سورہ آل عمران 32عرفان القرآن)
اسی طرح ایک جگہ ارشاد ہے کہ ۔ ۔ ۔
لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
ترجمہ :،بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo (سورہ آل عمران 164 عرفان القرآن)

فوائد و ثمرات: مندرجہ بالا دونوں آیات سے ثابت ہوا کہ جس طرح اللہ کی اطاعت (قرآن کی صورت میں ) ضروری ہے اسی طرح رسول صلی اللہ کی اطاعت بھی( فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت یعنی حدیث کی شکل میں) ضروری ہے۔حقیقت یہ ہےکہ دونوں اطاعتیں اپنے نفوس میں تو جدا جدا ہیں مگر حقیقتا ایک ہی ہیں۔۔۔۔ جیسا کہ ایک مقام پر فرمایا۔:من یطع الرسول فقد اطاع اللہ۔یعنی جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی اس نے (درحقیقت) اللہ ہی کی اطاعت کی۔
اور درج بالا دوسری آیت قرآن پاک میں تو ” وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ” کے صاف اور صریح الفاظ سے اس بات کی تصدیق ہورہی ہے کہ قرآن کو صرف قرآن سے سمجھنا ممکن نہیں، جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے تزکیہ نہ حاصل کرلیا جائے، اور پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی کتاب کی تعلیم لیتے ہوئے قرآن کی حکمتوں کو نہ سمجھا جائے ۔ یاد رہے کہ مندرجہ بالا آیت میں تزکیہ ، تعلیم اور حکمت تینوں کی نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے، نہ کہ قرآن کی طرف ۔اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ اس تزکیہ ، تعلیم اور حکمت تک رسائی کا واحد ذریعہ احادیث مبارکہ ہی ہیں۔ جو کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں بھی امت میں صدیوں سے رائج ہیں ۔
دیکھیے ایک اور مقام پر قرآن کس طرح سے مقام رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت کرتا ہے۔ارشاد باری ہوتا ہے۔۔۔
بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ۔
ترجمہ:- (انہیں بھی) واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ (بھیجا تھا)، اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں(النحل 44 عرفان القرآن)
فوائد : اس آیت نے تو کھول کر رکھ دیا اور واشگاف الفاظ میں بیان کردیا ۔چناچہ اب دیگر کسی بھی بیان کی احتیاج نہیں ۔ دیکھیے فرمایا کہ ۔۔۔
وَأَنزَلْنَا :- اور ہم نے نازل کیا
إِلَيْكَ :- آپ کی طرف
الذِّكْرَ :- اس ذکر کو
لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ :- تاکہ آپ اسے لوگوں پر کھول کھول کر بیان کردیں
سوال پیدا ہوا کسے کھول کھول کر بیان کردیں؟

جواب اسی آیت کے اگلے حصے میں ہے کہ
مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ۔ جو آپکی طرف نازل کیا گیا یعنی قرآن ۔
آپ نے دیکھا کہ خود قرآن نے اس قرآن کے تبیان یعنی”کھلے بیان” کے لیے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی رجوع کے لیے کہا۔ کیونکہ قرآن (یعنی قرآن کلام اللہ ہے) الگ شئے ہے۔ اور اس کا بیان (یعنی حدیث رسول اللہ ہے)الگ شئے ہے ۔جبکہ قرآن کا تبیان ، بیان رسول صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی احادیث و سنت ) کے سوا ممکن ہی نہیں ہے۔
ان آیات اور ان کے علاوہ سینکڑوں آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن اپنے مفہوم اور مدعا کو واضح کرنے میں بیان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا محتاج ہے۔ اور یہی وہ مقصد اور حکمت بھی ہے کہ جس کے تحت رسولوں کو مبعوث کیا گیا، وگرنہ اگر صرف کتاب ہی کافی ہوتی تو رسولوں کی بعثت کا کوئی مقصد نہ تھا ۔ ۔ ۔قرآن کو فقط قرآن سے نہ سمجھے جاسکنے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ایک تو قرآن ایک دم یعنی یکبارگی سے نازل نہیں ہوا بلکہ باقاعدہ وقائع کے تحت نازل ہوا یعنی قرآن کی اکثر آیات باقاعدہ کسی وقوعہ، سوال یا کسی معاملے اور قضیے کی بابت نازل ہوئیں۔ اور دوسرا یہ کہ قرآن پاک میں اللہ پاک نے انسانی معیشت کے اصول اور مبادی اجمالاً بیان فرمائے ہیں ،جن کی تعبیر و تشریح بغیر احادیث مبارکہ کے ممکن ہی نہیں۔ نیز اسی طرح سے احکامات کی عملی صورتوں سے کما حقہ واقفیت کے لیے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ضروری ہے۔ اور یہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں کہ جو ہمیں احکامات کی اصل تصویر مہیا کرتی ہیں۔ وگرنہ صلوٰۃ، زکوٰۃ ، تیمم و حج اور عمرہ یہ محض الفاظ ہیں اور لغت عرب ان کے وہ معانی بتلانے سے قاصر ہے جو کہ مدعا قرآن ہیں ۔
آپ ہی سوچیے اگر حضور نہ بتلاتے تو ہمیں کیسے پتا چلتا کہ لفظ”صلوٰۃ” سے ایک مخصوص ہیئت کذائیہ مراد ہے ۔ اسی طرح حج و عمرہ اور عشر و زکوٰۃ کی بھی تفصیل ہمیں قرآن میں نہیں ملتی۔ حد تو یہ ہے کہ حج کی بابت اس کے دیگر احکام یعنی وقوف عرفہ ،طوافِ زیارت و وداع کی تفصیل تو ایک طرف قرآن ہمیں یہ بھی نہیں بتاتا کہ حج کے لیے کونسا دن یا تاریخ مقرر ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کا صرف لفظ قرآن میں مزکور ہے مگر عُشر اور زکوٰۃ کی تفصیل اور ان جیسے دیگر تمام امور کی وہ شرعی ہیئت کذائیہ کہ جس سے فرائض ، واجبات اور آداب کی تمیز ہوسکے، ہمیں قرآن میں کہیں نہیں ملتی۔ بلکہ اس کے مقابلے میں قرآن کریم کے ان تمام بیان کردہ الفاظ کی تعبیر و تشریح اور احکام کی تفصیل ہمیں فقط اقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم (جو کہ بصورت احادیث منقول ہیں) سے ملتی ہے۔
جو شخص ان احادیث کو معتبر نہیں مانتا اس کے پاس قرآن کے مجمل اور مبہم احکام کی تفصیل کے لیے اور کوئی ذریعہ نہ ہوگا۔

یہ ہمارا بھی ایمان ہے کہ قرآن پاک کی اولاً تشریح خود قرآن پاک کی آیات سے ہی ہوگی، اسی لیے اصول تفسیر میں بھی اسی اصول کو مقدم رکھا گیا ہے، کہ اول درجہ “تفسیرالقرآن بالقرآن”کا ہے۔ کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر کرتی ہیں۔ یعنی” القرآن یفسر بوضہ ببعض” لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ بھی ایمان کہ قرآن کا اصل مفہوم اس کے مجمل و مشترک الفاظ کی اصل اور حقیقی تفہیم تک رسائی صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ کی طرف رجوع کے بغیر ناممکن ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن جو کہ عربوں پر نازل ہوا باوجود کہ عربی ان کی مادری زبان تھی وہ لوگ قرآن کی ایک ایک آیت کی تفہیم کے لیے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی رجوع کیا کرتے تھے۔ لہذا اسی وجہ سے قرآن کی تفسیر کا دوسرا بڑا اصول اور ذریعہ اصول تفسیر میں ” تفسیر القرآن باالحدیث”کو قرار دیا گیا ہے ۔

لہذا ہمارے نزدیک ہر وہ شخص جو صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر صرف قرآن سے ہی قرآن کو مکمل طور پر سمجھنے کا دعوٰی کرے وہ خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے۔ رہ گئی وہ آیت کہ جس سے استدلال کرتے ہوئے ایک طبقے نے بالعموم سارے کے سارے قرآن کی تفہیم کو ہی آسان سمجھ لیا تو اس آیت کا سیاق و سباق صاف طور پر بتا رہا ہے کہ قرآن کی جس تفہیم کی آسانی کی وہاں بات کی گئی ہے اس سے مراد وعظ و نصیحت اور عمومی ہدایت کے امور ہیں جیسا کہ خود آیت ” ولقد یسرنا القرآن للذکر فهل من مدکر” کہ الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ ۔ ۔
ترجمہ :- اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے۔ القمر32

اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قرآن صرف وعظ و نصیحت کے مجموعے ہی کا نام نہیں۔ بلکہ یہ کائنات کے تمام علوم و فنون کو محیط کتاب ہے، کہ جس میں رہتی دنیا تک کے تمام مسائل کا کہیں اجمالاً اور کہیں تفصیلاً بیان آگیا ہے۔ لہذا اس میں (یعنی قرآن میں سے)ایسے مسائل کا استنباط کرنے کے لیے ایک ایسی خصوصی جماعت(مجتہدیں و مفسرین) کا ہونا ضروری ہے جو کہ قرآن کی تفہیم کا اس کے تمام تر پہلوؤں سے احاطہ کیئے ہوئے ہو، کیونکہ قرآن کو صرف قرآن سے ہی مکمل طور پر نہیں سمجھا جاسکتا، کیونکہ اگر قرآن کو صرف قرآن ہی سے سمجھا جاسکتا ہوتا تو پھر صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ضرورت
(معاذ اللہ) نہیں بچتی تھی ۔

دوسری بڑی وجہ جو ہم اوپر بیان کرچکے کہ قرآن باقاعدہ وقائع کے تحت نازل ہوا اور نازل ہوتے ہوتے ہوا اور اس کے نزول کی تکمیل کو کم ازکم ساڑھے تیئس برس کا عرصہ لگا ۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے یکبارگی کے ساتھ نازل کردیا گیا ہو۔ بلکہ اس کا یہ تدریجی نزول اصل میں مقام رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تادم قیامت تک اہمیت اور بے شمار حکمتوں کے پیش نظر ہوا ۔ جیسا کہ کسی آیت یا، سورہ کا نزول کبھی کبھار کسی خاص واقعہ کے پس منظر سے متعلق ہوتا تھا ،بعض مرتبہ کسی خاص سوال کے جواب میں اور بعض مرتبہ مشرکین اور منافقین کے رد میں کوئی آیت نازل ہوتی تھی، کبھی کسی آیت میں عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ہونے والے کسی خاص واقعہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہوتا تو کبھی کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے کسی عمل پر بطور تنبیہ یا تائید کسی آیت کا نزول عمل میں آتا تھا ۔

لہذا جب تک کسی بھی انسان کو ان تمام وقائع اور ان کے پس منظر میں پیش آنے والے تمام شرائع (یہاں شرائع سے ہماری مراد شرعی ضرورتیں ہیں) یعنی اسباب نزول کا علم نہ ہو ان کا کوئی بھی واضح معنٰی ہماری سمجھ میں نہیں آسکتا ۔ اسی لیے ان تمام وقائع کو جاننے کے لیے ہمیں احادیث مبارکہ کی طرف رجوع کرنا ہی پڑتا ہے تاکہ قرآن کی صحیح اصل اور مکمل تفہیم سے ہمارے فہم روشن ہوسکیں۔ لہذا قرآن کو سمجھنے کے لیے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حجت ماننا ایک لازمی امر ہے ۔ اگر فہم قرآن کے لیے احادیث مبارکہ کو ایک معتبر ماخذ اور حجت کی حیثیت سے تسلیم نہ کیا جائے تو قرآن مجید کی مکمل ،حقیقی اور اصلی تفہیم سے کوئی بھی ذی بشر مستفید نہیں ہوسکتا۔ بلکہ قرآن کی بعض آیات تو معاذاللہ بالکل معمہ اور چیستان بن کر رہ جائیں گی ۔ وما علینا الاالبلاغ

Advertisements
julia rana solicitors

تحریر ابو امامہ عابد عنائت

Facebook Comments

عابد عنائت
مصرف اوقات مطالعہ کتب، دلچسپی مذہب و سیاست، تعلیم واجبی تاحال اور تا دم مرگ دین کا ایک ادنٰی سا طالب علم ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply