ہماری زبان۔ ۔ ۔

معزز خواتین و حضرات
السلام علیکم۔ ۔ ۔
میرا آج کا موضوع ہے زبان!
واضح رہے کہ زبان سے میری مراد وہ نہیں جو لب کشائی کے ساتھ ہی حرکت میں آتی ہے اور پھر وہ حشر اٹھاتی ہے کہ الحفیظ و الاماں۔ ۔ ۔ جو کسی خاتون کی ہو تو اتنی سریع الحرکت ہوتی ہے کہ البرٹ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت بھی باطل محسوس ہوتا ہے۔ ۔ ۔آئن سٹائن نے نظریہ پیش کیا تھا کہ کائنات کی سب سے تیز رفتار شے روشنی ہے۔ دنیا کی کوئی مادی شے روشنی کی رفتار کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ آئن سٹائن نے شادی نہیں کی تھی وگرنہ خاتون خانہ کی زبان کا مشاہدہ کرنے کے بعد اپنے نظریے سے ہی دستبردار ہو جاتے۔

بہرحال میں مادی زبان کے بارے میں نہیں لکھ رہا بلکہ یہاں اس زبان کو زبان دینے والی زبان کی بات ہو رہی ہے. وہ زبان جسے ہم مجموعہ الفاظ بھی کہتے ہیں۔یہ مجموعہ الفاظ ہی ہیں جو ہمیں اشرف المخلوقات بناتے ہیں۔ جانوروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ ویسے تو کچھ حضرات کے خیال میں ہم اصلاً و نسلاً جانور ہیں۔ ڈارون کے پیروکار تو بندر کو اپنا جدامجد قرار دیتے ہیں البتہ وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کس لمحہ پر ان کے جدامجد کی چِیں چِیں کسی بامعنی زبان میں منتقل ہوئی تھی؟۔۔۔میرے ایک دوست ڈارون کی تعلیمات سے بہت زیادہ متاثر تھے ۔ ہمیشہ بندر کو اپنے جدامجد کی نشانی کے طور پر تعظیم دیا کرتے۔ اگر کہیں بندر تماشے والا دکھائی دیتا تو ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے اور ڈگڈگی پہ ناچتے بندر کو برخوردارانہ شفقت کے ساتھ دیکھتے ساتھ میں اظہارِ تاسف بھی کرتے جاتے کہ ۔۔۔”ہائے، ہم بھی کیا ظالم لوگ ہیں، اپنے پُرکھوں کی نشانی کے ساتھ یہ سلوک”۔ ۔ ۔

میں نے ان کی آئے روز کی تبلیغ سے تنگ آ کر ایک روز کہا کہ میاں اگر بندر واقعی ہمارے آباءواجداد کی نشانی ہے تو اس کی بےمعنی زبان میں کوئی ایک لفظ تو انسانوں سے ضرور ملتا جلتا ہو گا۔ کم از کم ہماری موجودہ زبان جیسے کس بَل اور ارتقاء کی کوئی ایک نشانی تو اس بندر کی زبان میں ضرور ہونی چاہیے۔
وہ اس سوال پر تاؤ میں آ گئے اور مجھے لے کر فوراً ایک چڑیا گھر میں جا پہنچے۔ وہاں موجود بندروں کے غول کو نافرمان اولاد کی طرح کچوکے لگانے لگے۔ کافی دیر تک تنگ کرنے کے باوجود بھی جواباً ہائے۔ ۔ ۔ اوئے کی بجائے چِیں چِیں ہی سنائی دی تو مایوس ہو گئے۔ خیالات تو اب بھی ویسے ہی ہیں البتہ مجھے ان کے لیکچرز سے چھٹکارا مل گیا ہے۔

ویسے انسانی نظریہ ارتقاء سے ہٹ کر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جدید دور کی زبانیں کسی ایک زبان میں ہونے والے متنوع فیہ ارتقاء کا نتیجہ ہیں۔ گویا بات گھوم پھر کر بندر کو باپ بنانے پر ہی پہنچ جاتی ہے البتہ دنیا بھر کے ماہرین سماجیات و لسانیات مل کر بھی اس بات کا کھوج نہیں لگا پائے کہ وہ کون سا پہلا بامعنی لفظ انسان نے بولا ہو گا جس نے اسے جانوروں سے ممتاز کر دیا ہو۔ یقیناً یہ آواز آج بھی کثرت سے بولی جاتی ہو گی۔” نظریہ کثرت سے” کی رو سے دیکھا جائے تو ابتدائی لفظ مردانہ شکل میں”ممم” اور مستورانہ”آآآآآااا” ہو سکتا ہے۔ویسے اس نظریہ کثرت کی بنیاد پر مجھے لاہوریوں کا “آہو” اور پنڈی/ٹیکسلا والوں کی”جی” بھی انسانی زبان کے ابتدائی الفاظ معلوم ہوتے ہیں۔ آپ نوعیت اور جنس کے اعتبار سے ان دونوں الفاظ کو مردانہ و زنانہ میں بخوبی تقسیم کر سکتے ہیں۔ لاہوریے تو خیر”آہو” اتنی کثیر تعداد میں بولتے ہیں کہ گمان ہوتا ہے شاید اپنے گھروں میں صرف آہو بول کر ہی کام چلا لیتے ہوں گے۔ آپ کوئی بھی سوال کریں۔ ۔ ۔ جواب ہو گا” آہو”۔اچھے بھلے پڑھے لکھے بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔ لاہوری طالبعلموں کا بس نہیں چلتا کہ امتحانات میں بھی ہر سوال کا جواب “آہو” میں ہی دیں۔

ٹیپو سلطان ریاست میسور کا حکمران تھا؟
آہو!
کیا پاکستان 1920 میں معرض وجود میں آیا؟
آہو۔۔۔ (غصے والا)
انگریز نے برصغیر پر کتنے سال حکومت کی؟
آہو۔ ۔ ۔ (تذبذب والا)
کچھ یہی حال پنڈی والوں کی”جی” کا ہے۔ موقع اور سوال کی مناسبت سے ایک آدھ لفظ ساتھ لگا لیتے ہیں مثلاً جی آ۔ ۔ ۔ جی نئیں۔ ۔ ۔ جی جی وغیرہ وغیرہ۔
لاہوری آہو کے مقابلے میں یہ”جی” خاصی شریفانہ سی ہے اسی لیے غالب امکان ہے اس کا ابتدائی ظہور زنانہ سائیڈ سے ہوا ہو گا۔ ویسے بھی ٹیکسلا کی قدیم ترین تہذیب کے پڑوس میں اتنی کثرت سے استعمال ہونے والا لفظ بجائے خود اپنے قدیمی ہونے کا پتہ دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔ ۔ ۔

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply