وزیر اعظم کو جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا حکم اور سیاسی حدت

وزیر اعظم کو جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا حکم اور سیاسی حدت
طاہر یاسین طاہر
پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی جماعت ان دنوں پانامہ لیکس سکینڈل میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ اگرچہ پاناما لیکس سکینڈل میں براہ راست وزیر اعظم صاحب کا نام تو نہیں ہے مگر ان کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کی بابت اطلاع پا کر پاکستانی عوام اور اپوزیشن جماعتیں بالخصوص پی ٹی آئی نے اسے ایک مستقل ایشو بنایا اور اسے سپریم کورٹ تک لے گئی۔یہ پی ٹی آئی ہی ہے جس نے پاناما لیکس ایشو کو لے کر وزیر اعظم سے مستقل یہ مطالبہ کیا کہ وہ تحقیقات تک اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں۔یہاں حیرت انگیز طور پہ مسلم لیگ نون کے سیاسی رہنما ،وزرا اور کئی ایم این ایز مستقل طور پہ پاناما لیکس کیس کو لے کر وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا دفاع کر رہے ہیں۔جبکہ اسی خاص کیس کے حوالے سے دنیا میں مثالیں موجود ہیں کہ سربراہان حکومت نے استعفے پیش کیے۔ ہم مگر جس معاشرے کا حصہ ہیں یہاں ایسا کو ئی رواج یا روایت موجود نہیں ہے۔بلکہ ایسے بڑے بڑے سکینڈلز وقت کی گردمیں ہی گم ہو جاتے ہیں۔اس مرتبہ مگر میڈیا اور پی ٹی آئی نے بطور خاص اس ایشو پہ فوکس کیے رکھا اور کرپشن سے متصل کڑیوں کی تحقیقات کا بالآخر آغاز کر دیا گیا ہے۔
پانامہ کیس کی سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ عدالت حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے ثبوتوں سے مطمئن نہیں ہے ،لہٰذا اس کیس کی مزید تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنا دی۔ہم جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے جے آئی ٹی بنائے جانے کے فیصلے پر حکمران جماعت اور اس کے ترجمان بہت خوش ہوئے تھے اور مٹھائیاں تقسیم کی تھیں،کہ جے آئی ٹی در اصل اسی حکومتی پیش کش کی کڑی ہے، جس کے تحت حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کو پاناما کیس کی تفتیش کے لیے کمیشن بنانے کی پیشکش کی تھی۔مگر جب جے آئی ٹی کی کارروائی شروع ہوئی اور بالخصوص اس میں حسین نواز اور حسن نواز کی پیشیاں ہونا شروع ہوئیں تو حکمران جماعت کو بہر حال یہ ناگوار گذرا۔
کیونکہ جس پروٹوکول کی توقع تھی وہ حسین نواز کو نہ ملا جبکہ حسین نواز نے کہا کہ انھیں جے آئی ٹی میں نہ صرف گھنٹوں انتظار کروایا جاتا ہے بلکہ ان سے پانچ پانچ گھنٹے تحقیقات بھی کی جاتی ہیں۔حکومتی غصے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کے ایک سینیٹر نے براہ راست جے آئی ٹی اور ججز کو دھمکیاں دیں۔ اگرچہ آج اس سینیٹر کو پارٹی سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح حکومت ہی کے ایک اور جارح ترجمان نے جے آئی ٹی کو قصاب کی دکان کہا۔
یاد رہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی چھ رکنی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم نے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو جمعرات کو پیش ہونے کا نوٹس بھیجا ہے۔جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے بھجوائے گئے نوٹس کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کو 15 جون بروز جمعرات صبح 11 بجے اسلام آباد میں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں جے آئی ٹی کے سامنے طلب کیا گیا ہے۔جے آئی کی جانب سے بھیجے گئے نوٹس میں وزیراعظم نواز شریف کو دستاویزات اور ریکارڈ ہمراہ لانے کا کہا گیا ہے جبکہ وزیراعظم ہاؤس نے نوٹس کی موصولی کی تصدیق کر دی ہے اور کہا ہے کہ وزیراعظم جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے۔ واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے پاناما لیکس کیس کے فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں چھ رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کا حکم دیا تھا۔
اس فیصلے میں سپریم کورٹ کے تین جج صاحبان نے کمیٹی کو ساٹھ دن کے اندر اپنی تحقیقات مکمل کرنے کا وقت دیا تھا۔ اس کے علاوہ ٹیم کے لیے وضع کیے گئے ضوابط کے مطابق کمیٹی کو ہر 15 دن کے اندر اپنی رپورٹ تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔جب کہ 22 مئی کو وزیر اعظم اور اُن کے دو بیٹوں کے خلاف پاناما لیکس سے متعلق تحقیقات کرنے والی ٹیم کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کہا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے 60 روز سے زیادہ کی مہلت نہیں دی جا سکتی۔
اب جبکہ وزیر اعظم نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کیا ہے تو حکومتی اراکین اسے قانون کی بالا دستی کو تسلیم کرنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔جبکہ اپوزیشن اراکین با لخصوص پی ٹی آئی کی قیادت کا کہنا ہے کہ چونکہ جے آئی ٹی آئینی طور وزیر اعظم کے ماتحت آ تی ہے اس لیے تحقیقات مکمل ہونے تک وزیر اعظم اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی درست معلوم ہوتا ہے کہ نون لیگ کے کئی رہنما بشمول شہباز شریف یہ کہہ چکے ہیں کہ شریف خاندان کا یکطرفہ احتساب ہو رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف صاحب کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی ایک تاریخی موقع ہو گا اور اس پیشی کے بعد جے آئی ٹی کے طریقہ تفتیش اور اس کے اراکین کی جانبداری پہ الزامات کا سلسلہ تیز تر بھی ہو جائے گا۔جبکہ موجودہ سیاسی حدت میں بھی اضافہ ہوجائے گا اور پاکستان میں اداروں کی بالادستی کا خواب ممکن ہے شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومتی اراکین اور ترجمان ہر ممکن اس کوشش میں ہیں کہ عدالت عظمیٰ اور جے آئی ٹی کو متنازعہ بنا کر عوامی ہمدردیوں کو شریف خاندان کے لیے سمیٹ لیا جائے۔ ان کی اس کوشش میں سیاسی الزام تراشیوں اور سماجی ہیجان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،جو کسی بھی جمہوری سماج کے لیے درست بات نہیں ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply