مشال کا انتظار

میں آج بھی ہر جمعہ انتظار کرتی ہوں، جب میرا شیر ویک اینڈ پہ آتا تھا۔۔ بہنیں اپنے اکلوتے بھائی کے لئے آج بھی اس کی پسند کی چیزیں پکا کر دروازہ تکتی ہیں. ان بہنوں کی آنکھیں بھی پتھرا جاتی ہیں مگر پلکیں نہیں جھپکتی ۔ انتظار کی ڈور نہیں ٹوٹنے دیتی،بھائی بہنوں کے سروں کے دوپٹے ہوتے ہیں ۔۔۔یہ کہتی ہوئی وہ اپنی ماں سے لپٹی دروازے کو ٹکر ٹکر دیکھ رہی ہیں ۔۔
جیسے کوئی بھٹکا ہوا، پیاسا مسافرصحرا میں بادل کو دیکھ کر زندگی کی امید لگائے بیٹھا ہو۔۔۔ یہ چھوٹا بادل تو کبھی بڑی گھٹا بن کر برسے گا.۔۔ارے یہ کیا آج تو ابا بھی عصر کی نماز کے بعد مصلے پر بیٹھے آنکھوں کے راستے دعا میں گھٹائیں برسا رہے ہیں۔۔۔ یوں لگ رہا تھا کہ صوابی کے اس چھوٹے سے گھر میں ننھے منے بہت سے بادل ایک ساتھ مل کر برس رہے ہیں۔ آج اس نمک زدہ بارش میں سب مقدس چیزیں بھیگ رہی تھیں، مصلے سے لے کر قرآن، ماں کے دوپٹے سے لے کر ابا کا جائے نماز، بہن کا آنچل ۔۔۔ آخر پہ ابا بولے بیٹا میں ذرا فاتحہ پڑھ کر آیا قبر پر۔۔ مشال میرا انتظار کررہا ہوگا۔۔
بہن دیوانہ وار ننگے پاؤں گرم فرش سے بھاگتی ہوئی بیرونی دروازے تک پہنچ گئی کہ ابا میں بھی بھائی کو مل کے آؤں گی کہ یک لخت اماں کی آواز نے بیٹی کے پاوں روک دئیے۔۔۔۔ بیٹا اسلام میں عورتوں کے قبرستان جانے کی اجازت نہیں ۔۔ پہلے ہی لوگوں نے ہم پہ الزام لگا کے بیٹا چھین لیا، ۔۔۔۔اب کسی اور کا بچھڑنا برداشت نہ ہوسکے شاید۔۔!

Facebook Comments

رانا مدثر علی
میں مدثر علی ایک phd سکالر ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply