فائر بندی کی لکیر سے متصل آبادیوں کا درد

فو ن کی گھنٹی بجی اور سکرین پر ایک آشنا کا نام چمکا ، میں نے کا ل کاٹی اور دوبارہ وہی نمبر ملایا ، دوسری طرف کی متفکر آواز کانوں میں پڑی، “بھائی سنیں کنٹرول لائن پر شدید فائرنگ ہو رہی ہے ، لوگ گھروں میں محصور ہیں اور شدید گولہ باری کے نتیجے میں بڑا جانی اور مالی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ شکر ہے گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے کنٹرول لائن کے ملحقہ علاقوں کے سکول بند ہیں نہیں تو نونہالوں کے لئے متفکر مائیں اپنے بچوں کے گھر پہنچنے سے پہلے سو دفعہ مرتیں ۔ یار یہ پاکستانی نیوز چینل پر کوئی پٹی نہیں چل رہی۔ آپ کے پاس کسی رپورٹر کا نمبر ہو تو اسے فون کر کے بتا دیں کہ کنٹرول لائن پر فائرنگ کی خبر چلوا دے”۔

میں نے فون بند کیا اور سوچا خبر چلنے سے کیا ہوگا، کیا دونوں طرف کی توپیں خبر چلنے پر نادم ہو کر خاموش ہو جائیں گی ؟ نہیں مجھے فون نہیں کرنا چاہئے یا کر لوں؟ رمضان ہے شاید نمائندہ سو رہا ہو ؟ چلو کر لیتے ہیں ، میں نے فیصلہ کرتے ہوئے نمائندے کا نمبر ملایا، بھلا آدمی ہے جب بھی فون کیا ظالم اتنی محبت سے گویا ہوا کہ مجھے اپنائیت کا احساس دلا گیا، آج بھی فون کیا تو میں نے معذرت خوانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے پوچھا”بھائی سو تو نہیں رہے تھے”، خوبصورت لہجے اور اپنائیت سے بولا”نہیں بھائی بچوں کو ابھی سکول چھوڑا ہے”۔۔۔۔ میں نے عرض کی کہ کنٹرول لائن پر شدید فائرنگ ہو رہی ہے، سوچا آپ کو اطلاع کر دوں اور آپ اپنے چینل پر پٹی چلوا دیں ، متفکرانہ انداز میں بولا،آپ نے بہت اچھا کیا، آپ کے حکم کی تعمیل ہو گی۔

کنٹرول لائن کے دونوں طرف رہنے والے کشمیریوں نے2003 کی فائر بندی کے بعد سکھ کا سا نس لیا تھا اور معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہوئے ، بے یقینی کے بادل چھٹے ، کنٹرول لائن کے قریب کی آبادیوں نے سکھ کا سانس لیا، لوگوں کا قیاس تھا کہ شاید اگلی نسل ایک ہاتھ، ایک پاؤں سے محروم نہیں ہو گی۔ شاید اب فصلوں کو جمع کر کے جب خشک کرنے کے لئے چھوڑا جائے گا تو کھلیانوں میں خشک ہوتی فصلیں بارود سے خاکستر نہیں ہوں گی۔ مگر دونوں جانب کی سیاسی حکومتوں اور عسکری اکابرین ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے لئے شاید تیار نہیں تھے۔ کنٹرول لائن کے اس طرف پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی اکثر آبادیاں بھارتی فوج کی چوکیوں سے اتنے قریب ہیں کہ ماضی میں جب فائر بندی نہیں ہوئی تھی چوکیوں پر سپیکر لگا کر بھارتی فوجی قریبی لوگوں کے نام پکارتے ہوئے انہیں وقتاً فوقتاً متنبہ کرتے رہتے تھے اور بعض اوقات تفنن طبع کیلئے کسی مخصوص فرد کو چھوٹے ہتھیار سے نشانہ بھی بنا لیتے تھے۔

اگر انسان لکھنے بیٹھے تو کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کے لوگوں کی کہانیاں لکھنے کے لئے وقت کم پڑ جائے۔فائر بندی کے معاہدے کے موجود ہوتے ہوئے جب اچانک دونوں اطراف کی توپیں آگ اگلنے لگتی ہیں تو ہر ذی شعور انسان کا ماتھا ٹھنکتا ہے اور لوگ وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر سادہ لوح عوام ہندو مسلم ازلی دشمنی تک ہی سوچ کر مزید سوچنے کے عمل کو ترک کردیتے ہیں ۔ دونوں اطراف کی سیاسی اور عسکری قوتیں پاکستان اور بھارت کے عوام کے اندر اندرونی گرفت کو مضبوط کرنے کیلئے جو کھیل کھیل رہی ہیں شاید آج تک ارباب دانش اس کا اندازہ نہیں کر پائے اور اگر کر بھی پائے ہیں تو اسے منظر عام پر لانے میں جھجک محسوس کررہے ہیں۔

کنٹرول لائن کے دونوں طرف بسنے والے کشمیری اب موت اور شہادت کے مسئلے پر بھی مخمصے کا شکار ہیں، اکثر نوجوان یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر پاکستانی فوج کی طرف سے داغے گئے گولے سے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی کسی آبادی میں کوئی مسلمان مارا جاتا ہے تو کیا وہ بھی شہادت کے درجے پر فائز ہو گا یا اسے محض مردہ سمجھ لیا جائے۔ حالیہ شدید فائرنگ کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کے بعد عوام میں یہ فکر شدت اختیار کر چکی ہے کہ اگر واہگہ بارڈر پر پاکستان اور بھارت کے تعلقات کسی بھی غیر معمولی صورت حال کا شکار نہیں ہوتے تو کنٹرول لائن پر اتنا متشدد رویہ کیوں؟

پاکستان کے تمام نجی ٹی وی چینلز پر جاری موجودہ بحثوں کو اشاریہ سمجھتے ہوئے کشمیری عوام اب اس بات پر بھی متفکر ہیں کہ مسئلہ کشمیر اب پاکستان کی سیاسی حکومت کی ترجیح نہیں رہا کیونکہ جولائی 2016 سے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے اندر جاری تحریک کسی بھی طرح پاکستان کے سرکاری اور غیر سرکاری الیکٹرانک میڈیا پر بحث نہیں بنی اور نہ ہی کسی کشمیری کو بلا کر یہ پوچھا گیا کہ کشمیر کی آزادی اور خود انحصاری کے بارے ان کا نقطہ نظر کیا ہے۔ گزشتہ ستر برس سے جاری تحریک جب بھی زور پکڑتی ہے ، بھارت بڑی سہولت سے اسے پاکستانی سازش قرار دے کر دنیا کی آنکھوں پر ایک پٹی باندھ دیتا ہے اور وہ ایسا کیوں نہ کرے جب پاکستان کے اندر کالعدم قرار دی جانیوالی مذہبی اور عسکری تنظیمیں اُس پار شہید ہونے والے عسکریت پسند کی لاش کو اپنا لیتی ہیں اور جھٹ سے یہ بیان داغ دیتی ہیں کہ”جی وہ ہمارا بندہ تھا”حالانکہ اس عسکریت پسند کا پاکستان کی کسی سیاسی یا متشدد تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

کشمیری 70 برس گذرنے کے بعد بھی سرحد کے اس پار سے ایک امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کب پاکستان کشمیر کی سفارتی جنگ جیت کر ان کو آزادی کا تحفہ پیش کرے گا، اسے کشمیریوں کا سیاسی بھولا پن کہیے یا پاکستان کے ساتھ محبت۔ آج اگر کنٹرول لائن کی ملحقہ آبادیوں یا آزاد کشمیر کے عام شہریوں سے ایک سروے کر کے ایک دستاویزی رپورٹ مرتب کی جائے تو اُس رپورٹ کے ہر پنے سے مایوسی جھلکتی نظر آئے گی۔ اگر کوئی مبصر تحقیق کی غرض سے کنٹرول لائن کےمتاثرہ علاقوں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں ترقی کے عمل بارے تحقیق کرے تو نتائج ایمانکلسن کی مرتب کردہ رپورٹ سے قطعاً مختلف نہیں ہوں گے۔کنٹرول لائن سے ملحقہ آبادیوں کو نقصانات سے بچانے کے لئے پاکستان اور بھارت کو اپنے سیز فائر کے معاہدے پر مکمل عمل کرنا ہوگا تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا بحال ہو سکے اور بات چیت کا عمل آگے بڑھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر کبھی کبھی گمان ہونے لگتا ہے کہ دونوں طرف ایک ہی جیسی کوئی ایسی قوت موجود ہے جس کا کاروبار صرف تشدد اور عدم برداشت سے وابستہ ہے، کیونکہ جب بھی دونوں ملکوں کی سیاسی حکومتیں کسی امن کے عمل پر بات چیت کا دور شروع کرتی ہیں امن دشمن کو اپنا کاروبار متاثر ہوتا دکھائی دیتا ہے اور دونوں ملکوں میں یا کسی ایک ملک میں کوئی ایسا پرتشدد واقعہ ہوجاتا ہے جس کا الزام ایک دوسرے پر تھوپنے کے بعد دونوں ممالک کی راہیں پھر سے جدا ہو جاتی ہیں اور اس بداعتمادی کی فضا میں کنٹرول لائن کے رہائشی گولہ باری کی مشق کا نشانہ بنتے ہیں جو ذہنی طور پر کسی بھی غیر معمولی صورتحال کیلئے تیار نہیں ہوتے جبکہ دونوں ممالک کی حکومتوں اور دیگر ارباب اختیار کے پاس متاثرین کی بحالی کی کوئی بھی حکمت عملی موجود نہیں ہے کیونکہ مروجہ ریاستی نظام میں لوگ حکمرانوں اور ریاستوں کی ترجیح نہیں رہے۔

Facebook Comments

اظہر مشتاق
اظہر مشتاق سماج کے رِستے زخموں کو محسوس کرنے والا عام انسان ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”فائر بندی کی لکیر سے متصل آبادیوں کا درد

  1. کنٹرال لائن کے قریب بسنے والے لوگوں کے مسائل اور مشکلات کی ترجمانی بہت خوبصورتی سے اور دردِ دل سے کی گئی ہے ۔

Leave a Reply