دمادم مست قلندر

آج ایک بار پھر بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقہ میں واقع شاہ نورانی کی درگاہ پر دھماکہ ہوا۔ ایک بار پھر اس لیے کہ درگاہیں اکثر ہوتی ہیں، بس صوفی و بزرگ کا نام بدل جاتا ہے۔ خیر بے شمار اموات اب تک ہو چکی ہیں ، مزید کی توقعات ہے۔ ہم لوگ اس وقت اس جگہ کے درد کو سمجھ سکتے ہیں، بعض کسی حد تک محسوس بھی کر سکتے ہیں۔ لوگوں کا درد، لواحقین کا درد، مگر سمجھنے سے ، مذمتی بیان سے اور صرف ان کے غم میں رونے سے لواحقین کے دکھوں کا مداوا ہو سکتا ہے؟ کیا ہمارے نصیبوں میں رونا ہے، یا صرف ہم اس لیے بچ رہتے ہیں کہ ہم نے ابھی اپنے اپنوں کی مزید لاشیں اٹھانی ہیں؟

انعام رانا نے 27 مارچ 2016 لاہور پارک دھماکہ کے وقت لکھا تھا کہ “دوستو آؤ، ہم سب مل کر ایک خواب دیکھیں؛ امن کا، رواداری کا، عزت کا، عدل کا، فتح کا۔ ایسے پاکستان کا کہ جس میں بارود کا غبار نہ ہو اور خون کی بو نہ ہو۔ جس میں دہشت نہیں محبت اور تفریق نہیں اتحاد راج کرے۔ میں لاہور میں نہیں لیکن میرا لاہور مجھ میں زندہ ہے؛ آو دوستو وعدہ کریں کہ یہ لاہور کبھی مرنے نہیں دیں گے، یہ پاکستان کبھی ہارنے نہیں دیں گے”۔ انعام رانا، میں جانتا ہوں کہ تم اس وقت امید دلا رہے تھے، تم حوصلہ دے رہے تھے ، ان حالات میں تم کہتے تھے کہ بارود کا غبار نہ ہوگا، اک ایسا خواب دیکھیں جہاں خون بو بھی نہ ہو، مگر صورتحال سب کے سامنے ہے۔ یار دہشتگرد خود کو اڑا کر باقیوں کو ہلاک کر دیتا ہے اور خود شہید ہو جاتا ہے کیوں ایسے ہی نا ؟

3 اپریل 2011 کی تاریخ یاد ہے؟ ڈیرہ غازی خان کے قریب سخی سرور دربار ہے، اس روز عوام کا اک جم غفیر تھا جیسے آج نورانی شاہ کی درگاہ پر ہوگا دوپہر کے بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا جیسے آج ہوا، اڑانے والے نے خود کو اڑا دیا۔ مجھے یاد ہے خود کو اڑانے والا مجھ سے 8 فٹ سے زیادہ دوری پر نہیں تھا ، ایسا لگا کہ ایک بہت بڑا درخت اٹھا کر کسی نے میرے منہ پر مارا ہو، لوگوں کی زندگیوں نے میری زندگی بچا لی، ارد گرد دیکھتا ہوں کہ مزار کی دیوار پر خون ہی خون ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب کے بھی خون سے درگاہ کے در و دیوار رنگین ہونگے، اب کے بھی کسی کا سر لڑھکتا ہوا سیڑھیوں سے نیچے گر رہا ہوگا تو کسی کی ٹانگیں علیحدہ ہو کر ایک طرف کو پڑی ہوں گی۔ کوئی جسم کے دو ٹکڑے ہونے پر صرف تڑپ رہا ہوگا تو کوئی خون میں ڈوبا صرف دوڑ رہا ہوگا۔ لوگ چیخ رہے ہوں گے، چلا رہے ہوں گے، بھاگ رہے ہونگے، کیونکہ وہاں بھی ایسا ہی منظر میرے آنکھوں کے سامنے تھا، وہ اس کے سوا کر بھی کیا سکتے تھے۔ اس روز میری سماعتوں میں کئی روز تک جو فقرہ گونجتا رہا وہ یہ تھا ‘بھج وئے گودا مولی پے گئین’ (بھاگ بھائی مولوی پڑ گئے ہیں)۔ آپ کہتے ہیں اسلام سے دہشتگردی کا تعلق نہیں؟ بالکل بجا اور درست فرماتے ہیں، ہاں مگر مولوی سے دہشتگردی کا تعلق ضرور ہے –

مجھے یاد ہے کہ امدادی ٹیمیں ڈیرہ غازیخان سے آنی تھیں، جیسا کہ آج درگاہ پر زخمی امداد کے منتظر تھے ویسے ہی ہم بھی زخموں سے چور بال بیرنگ جسموں میں لیے امداد کے منتظر چھپے ہوئے تھے۔ کئی زخمی جو بچ سکتے تھے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گئے، بعض کی لاشیں جھاڑیوں سے ملیں، بعض پہاڑوں کے پاس جا چھپے کیونکہ یکے بعد دیگرے تین دھماکے ہوئے تھے، جس سے ہر شخص سہما ہوا تھا۔ کوئی بھاگنا بھی نہ چاہتا تھا کہ بھاگتا بھی تو کس طرف؟ ایک حملہ آور جو گرفتار ہوا تھا اس کے الفاظ تھے “ہم نے اللہ کی رضا کیلئے مارا ہے”۔ اب اللہ کے سپاہیوں سے کوئی کیسے لڑے؟ ہم میں تو سکت نہ تھی، سو چھپے رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

باقی مجھے حیرانی ہے کہ دھمال سے اللہ ناراض ہو رہا تھا۔ چونکہ اس وقت بھی عین دھمال کی جگہ پر دھماکہ ہوا تھا۔ آپ کرتے رہیں بحث دھمال جائز ہے کہ ناجائز ! میں نے اس روز بھی لاشیں گنتی کی تھیں، آج بھی لاشیں گننے دیں۔ آپ اپنا کام جاری رکھیں، بس ایک عرض ہے کہ ان مرنے والوں کو اب شہید نہ کہیے کیونکہ لاشوں کو مقدس کرکے خود کو سکیور سائیڈ لے جائیں گے آپ۔ حالانکہ میں اور آپ سب جانتے ہیں کہ وہ کسی سے لڑنے نہیں آئے تھے جسے آپ خود سے شہید کہلوا دیں ! باقی جانتے آپ بھی ہیں اور میں بھی کہ اس سب کے پیچھے مائنڈ سیٹر کون ہے، جو دمادم مست قلندر کا مخالف ہے!!

Facebook Comments

شیراز چوہان سوز
ایک بانکا جو لکھنؤ کے بجائے ملتان میں پیدا ہوا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply