کوئی ہے۔۔۔۔۔؟واصل شاہد

کیا انتہا پسندی ایک “مذہبی” مسئلہ ہے. جس نے قومی زندگی کو مفلوج کر دیا ہے؟

یہ جاننے سے پہلے ہمیں صحیح معنوں میں سمجھنا ہوگا کہ انتہا پسندی یا شدت پسندی دراصل ہے کیا…..؟
عمومی معنوں میں انتہا پسندی ہر اس رویے کو کہا جاتا ہے، جس کی بنیاد اور محرک سوچ کی انتہائی شدید سطح ہو. اور اپنی اس سوچ کو حتمی تسلیم کر کے، انفرادی ہی نہیں، اجتماعی سطح پر غلط اور صحیح، سچ اور جھوٹ، حق اور باطل کا معیار طے کیا جائے.

اور اب اس انتہا پسندی کی بھی انتہائی صورتحال درپیش ہے.کہ سوچ کی تطہیر، فکر کی ریاضیت، اور عقل کی کسوٹی کو بروئے کار لائے بغیر،. جذبات، خواہشات اور مفادات کے خلاف کوئی بھی عمل انفرادی یا اجتماعی زندگی میں واقع ہو تو ہیجان اور احتجاج کا ایسا طوفان برپا کر دو کہ قومی زندگی خطرے میں پڑ جائے۔
کیا ایسا صرف مذہبی حلقوں کی طرف سے ہو رہا ہے؟.

نہیں، قومی سیاست کو بھی اسی معیار پر پرکھا جائے تو کم وبیش وہ بھی ایسی ہی انتہا پسندی کی شکار ہے.

کہ، وہاں بھی معقول ذہنی رویوں کی بجائے، جذباتی طرزِ عمل اور اشتعال انگیز گفتگو کو پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے، جبکہ اس کے مقابل سنجیدگی اور سنجیدہ فکر ایک اجنبی عنصر بن چکا ہے.
سیاست اور مذہب کے علاوہ زندگی کے بقیہ شعبوں کو بھی پرکھیں تو معلوم ہو گا کہ ہمارا پورا سماج ہی اسی انتہا پسندی کی لپیٹ میں ہے. اور یہ سانچہ ایک دن میں نہیں ہوا، بلکہ ریاست کی کئی  برسوں کی مسلسل غیر ذمہ داریوں، مجرمانہ خاموشی، اور غیر سنجیدگی سے سماج آج اس انتہا تک پہنچا ہے.
سماج کی تربیت کرنا جن اداروں کی ذمہ داری ہے وہ خود اسی انتہاپسندی کی لپیٹ میں ہیں. کچھ سیاسی، کچھ مذہبی اور کچھ فکری انتہا پسندی کی!
اور اس لیے اب وہ وقت آ چکا ہے جب عقل کی بجائے جذبات کی قیمت زیادہ ہے.فکری ریاضت سے زیادہ اہمیت اندھی تقلید کی ہے.تعمیر اور تہذیب سے زیادہ قابلِ ستائش تخریب ہے.

سانحہ صرف یہاں تک نہیں رکتا۔۔ بلکہ اس غیر متوازن صورتحال کے اسباب کا جائزہ لے کر، اس کو صحیح سمت دینے والے خود بھی اسی طریقہ کار، یعنی انتہا پسندی کی جذباتی واردات سے ہیرو بننے کی دوڑ میں رہتے ہیں.
ہماری عدلیہ، سیاسی لیڈرشپ ، مذہبی فکر، شاید یہ سب بھول چکے ہیں، کہ قومی زندگی کی رہنمائی کے لیے فکری ریاضیت درکار ہوتی ہے، نہ کہ جذباتی اور اشتعال انگیز رویے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اشتعال کے ان دو طرفہ رویوں سے آگ بھڑک چکی ہے. بہت سے پہلے بھی اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں. لیکن پھر بھی یہ آگ ٹھنڈی نہیں ہو پارہی ہے۔
اور ہم، اپنے گھر کو لگی اس آگ کو بجھانے سے پہلے ایک دوسرے کی شناخت پرکھ رہے ہیں۔۔ ہاں بھئی لبرل ہو تو بے حیا ہو، جلا دو، مذہبی ہو تو تنگ نظر ہو،بلکہ جاہل بھی ، لیگی ہو، تو چور اور ڈاکو ہو، پکڑ لو، لٹکا دو، انصافی ہو، تو جذباتی حد تک محبِ وطن ہو، آزاد ہو، جسے مرضی گالی دو،
اور حد یہ ہے کہ فرمان جاری ہوا، ملک کو معشوق بنالو۔۔
کوئی ایسا بھی ہے،. جو اس عشق و مستی، ہیجان و جذبات، اور اشتعال کا سستا کاروبار کرنے کی بجائے، ذمہ دار ہو، مہذب ہو، گھر کو لگی آگ بجھانے سے پہلے لوگوں سے ان کی شناخت نہ پوچھے، بلکہ ہر طرح کی گروہی تقسیم کی شناخت سے بلند ہو کر انسانیت کو مقدس جانتا ہو.۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply