پاکستان کی عسکریت نوازی : فسانہ یا حقیقت

جب سے افغانستان میں تحریک طالبان وجود میں آئی ہے تو شروع دن سے پاکستان پر اس کی حمایت کا شک کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے بعض ریاستی اداروں پر افغان طالبان کی حمایت کا شک کرنے کی وجوہات اس پر شک نہ کرنے سے بہت زیادہ ہے۔ اس طرح ریاستی دعوے اور بیانات ایک طرف مگر شک کی گنجائش پیدا کرنے والے عوامل اور وجوہات بہت زیادہ ہیں،اگر سچ پوچھا جائے تو حمایت کا الزام شک نہیں رہا بلکہ اب یہ شک حقیقت کا روپ دھار چکا ہے ۔
مثال کے طور پر ناقابل تردید شواہد اور ثبوتوں کی موجودگی جو مُلا عمر کی پاکستان میں ہلاکت یا اس کے جانشین مُلا اختر منصور کی رسم تاجپوشی کی تقریب یا بعد میں اس کی ڈرون حملے میں ہلاکت یا افغان طالبان کے موجودہ سربراہ مُلا ہیبت اللہ کی تاجپوشی ،ان راہنماؤں کی پاکستان میں تحریکی سرگرمیاں اور رہائش ثابت کرتی ہے۔ اس طرح پچھلے دنوں طالبان کے فنڈ ریزنگ کمیٹی کے سربراہ مُلا متین اور طالبان خارجہ تعلقات کے ایک اہم رکن مُلا داؤد پاکستان میں مارے جاچکے ہیں۔ غرض ماضی میں بہت سے دیگر حوالوں سے بھی کئی سینئر طالبان راہنماؤں کی موجودگی کی خبریں میڈیا میں چھپتی رہی ہیں ۔

ان شواہد کی موجودگی میں افغان طالبان کو پناہ فراہم کرنے یا حمایت سے انکار بہت بڑا جھوٹ لگتا ہے ۔اب طالبان کی حمایت کے اس سچ کو بے بنیاد اور بلند وبانگ دعوؤں اور جھوٹی یقین دہانیوں سے چھپایا اور جھٹلایا بھی نہیں جاسکتا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کھلم کھلا جھوٹ کیوں بولا جاتا ہے؟ کس سے بولا جا رہا ہے ؟ آیاہم افغانستان کو یا بیرونی دنیا کو یہ بتلانا چاہتے ہیں ،ورغلانا چاہتے ہیں ؟ نہیں ان کو تو ہم سے زیادہ حقائق کا ادراک اور معلومات ہیں۔ یہ جھوٹ صرف اور صرف پاکستانی قوم سے بولا جا رہا ہے تاکہ غلط اور تباہ کن ریاستی پالیسی کو جواز فراہم کیا جائے اور عسکریت پسندوں کی حمایت جاری رکھی جاسکے ۔ شورش زدہ علاقوں کے لوگوں کو سب پتہ ہے کہ کون کیا گیم کھیل رہا ہے البتہ ملک کے باقی حصوں میں ابھی تک تذبذب کی فضا ہے ۔

رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے پہلے ہفتے میں افغانستان میں دہشت گردی کے خوفناک واقعات جس میں تین سو سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے نے افغان طالبان اور اس کی علاقائی حمایت کے مسئلے کو دوبارہ اجاگر کیا ہے۔اگر ایک طرف افغان سکیورٹی حکام نے حالیہ واقعات کی ذمہ داری حقانی نیٹ ورک ، طالبان اور پاکستانی ایجنسی پر ڈالی تو دوسری طرف افغان طالبان اور ان کے حامی مقامی عسکریت پسندوں کی افغانستان وغیرہ میں جہاد کے لئے چندہ جمع کرنے کی سرگرمیوں کی خبریں اور اطلاعات بھی سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔جب سے پاکستان میں عسکریت پسندی کا ظہور ہوا ہے ۔ چاہے افغان طالبان ہوں یا پاکستانی عسکریت پسند، ان سب کے لئے رمضان کا مہینہ فنڈ جمع کرنے کے حوالے سے ایک اہم مہینہ ہوتا ہے۔ اس اسلامی مہینے میں فنڈز جمع کرنے کی مہم زوروں پر ہوتی تھی ۔ اب بین الاقوامی دباؤ اور داخلی مشکلات کی وجہ سے جہاد وغیرہ کے لئے چندہ جمع کرنے پر حکومت نے بظاہر پابندی عائد کی ہے مگر ملک کے مختلف حصوں میں ریاستی اداروں کے ناک تلے عسکریت پسندوں کی چندہ مہم کسی نہ کسی شکل میں چلتی رہتی ہے ۔

عسکریت پسندوں کی جہادی سرگرمیوں کی خبروں کو مین سٹریم میڈیا اکثر نظرانداز کرتی ہے، جبکہ یہ خبریں سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں ۔ سوشل میڈیا پر آج کل دو اہم چیزیں زیر گردش ہیں ،ایک ضلع دیر کی ایک مسجد میں عسکریت پسندوں کی جانب سے چندہ جمع کرنے کی مہم کی ویڈیو اور دوسرا افغان طالبان کی ژوب میں فنڈز جمع کرنے کے حوالے سے سرگرمیوں کا ایک خط ۔ ویڈیو میں جیش محمد کا ایک عسکریت پسند افغان اور کشمیری مجاہدین کے لئے چندہ مانگ رہا ہے ،جبکہ خط سے جو مولوی اللہ داد خطیب جامع مسجد ژوب کی جانب سے علاقے کے دیگر علماء کو لکھا گیا ہے یہ ظاہرہوتا ہے کہ افغان طالبان کی مالیاتی کمیشن کے سربراہ مُلا عبدالمنان نے ژوب میں علماء سے چندہ جمع کرنے کے سلسلے میں رابطہ کیا ہے اور خط سے مُلا عبدالمنان کی بلوچستان میں موجود ایک مہاجر کیمپ میں رہائش ثابت بھی ہوتی ہے۔ خط سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ افغان طالبان کے لئے ماضی میں بھی اس علاقے سے چندہ جمع کیا گیا ہے۔ خط کے مطابق دو جون دوہزار سترہ یعنی بروز جمعہ کے خطبات میں علاقے کی تمام مساجد میں افغان جہاد کی حمایت میں بات اور افغان طالبان کے لئے چندہ جمع کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

گزشتہ جمعہ کے روز ژوب اور علاقے کی دیگر مساجد میں چندہ بھی جمع کیا گیا اور جہاد کی فضیلتیں بھی بیان کی گئیں جبکہ حالیہ دنوں افغانستان میں دہشت گرد سرگرمیوں میں سینکڑوں شہید معصوم مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔ دوسری طرف معلوم ہوا ہے کہ ژوب کا مذکورہ مُلا جس کا تعلق مُلا فضل الرحمن کی جماعت جمعیت علماء اسلام سے بتایا جاتا ہے سرکاری ملازم اور مسجد کا خطیب ہے۔ مُلا اللہ داد نے ایک بیرونی نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں گزشتہ جمعہ کو بلوچستان کی مساجد میں چندہ جمع کرنے اور جہاد کے حق میں بات کرنے کی تصدیق بھی کی ہے ۔اگر افغان طالبان یا گڈ یا بیڈ طالبان کی پالیسی واقعی ملک و قوم کے مفاد میں ہے تو اس کو چھپانے یا اس پر شرمانے اور کھلم کھلا جھوٹ بولنے کی تُک سمجھ میں نہیں آتی ہے، کیونکہ ریاستی اداروں کے افغان طالبان سے تعلقات اور ان کی حمایت اتنی آشکارا اور ننگی ہے کہ جھوٹ چاہے جتنا بھی بولا جائے ،چھپنے سے نہیں چھپتا ۔ چونکہ عسکریت پسندی کے حوالے سے ملک میں ایک عمومی نفرت موجود ہے اور عوام نے عسکریت پسندی کے ہاتھوں بہت تباہی اور بربادی دیکھی ہے اس لئے طالبان کے ساتھ تعلق کو کسی طور جائز ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔

سب کو پتہ ہے کہ کئی نامی گرامی بیڈ طالبان کہلانے والے عسکریت پسندوں نے ریاستی اداروں کے زیر کنٹرول تربیتی کیمپوں میں عسکری تربیت حاصل کی ہے اور عرصہ دراز تک ریاستی اداروں کی حمایت اور سرپرستی کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ اکثر مقامی طالبان نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں فوجی آمریت کی امریکہ نواز پالیسوں اور بعض دیگر وجوہات کی وجہ سے علم بغاوت بلند کیا۔مختلف پاکستانی طالبان گروپوں کی ترجمانی کرنے والے احسان اللہ احسان جنہوں نے اکثر بڑے بڑے دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی کے کیس نے اس ڈھونگ کا پول کھول دیا ہے ۔ جس طریقے سے اس کی پذیرائی کی گئی اور اسے ایک قومی ہیرو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی اور قوم نے جس غم وغصے کا اظہار کیا ہے اور جس طریقے سے اس ڈرامے کو رد کیا ہے اس سے عسکریت پسندوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے ریاستی اداروں کی آنکھیں اب کھل جانی چاہییں ،پاکستان کی موجودہ سفارتی تنہائی اور مشکلات کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر عسکریت پسندوں کی حمایت یا بیڈ اور گُڈ طالبان کی پالیسی ان میں سے ایک اہم وجہ ہے ۔ دو ہمسایہ ممالک افغانستان اور انڈیا سے معمول کے سفارتی تعلقات تعطل کا شکار ہیں اور مذاکرات عسکریت پسندوں کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھانے اور علاقے میں عسکریت پسندی کے واقعات میں نمایاں کمی کے بغیر آگے نہیں بڑھ رہے ہیں ۔

ایران نے حال ہی میں سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے 26 اپریل 2017 کے سنگین واقعہ کے بعد جس میں 9 ایرانی سرحدی محافظین کو مارا گیا تھا ،ہاٹ پرسوٹ یعنی عسکریت پسندوں کی پاکستان کے اندر سرگرم تعاقب کرنے کی دھمکی دی ہے ۔ جس کا واضع مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے ایران میں دہشت گرد حملے بند نہیں ہوئے تو عسکریت پسندوں کو پاکستان کے اندر نشانہ بنایا جائے گا ۔ سفارتی تعلقات میں ایسی دھمکیاں شاذو نادر ہی دی جاتی ہیں اور دو ممالک کے تعلقات میں ایسی باتیں عموماً ایک بہت ہی ناخوشگوار اور انتہائی اقدام تصور کیا جاتا ہے۔ ایران عرصہ دراز سے الزام لگا رہا ہے کہ سرحدی علاقوں سیستان میں سرگرم عمل سُنی عسکریت پسند جو پہلے جنداللہ اور اب جیش العدل کے نام سے متحرک ہیں کے اہم راہنما اور ان کے مراکز پاکستان میں موجود ہےہیں اور وقتاً فوقتاً باہر سے آکر ایران میں دہشت گرد حملے کرتے ہیں۔ ایران مخالف سُنی عسکریت پسند راہنما عبدالمالک ریگی کی گرفتاری سے پہلے جنداللہ کے اہم مراکز پاکستان میں تھے اور اس کی گرفتاری کے بعد جنداللہ کے کچھ لوگوں نے جیش العدل بنائی ۔ ایرانی حکام شک کر رہے ہیں کہ جیش کے مراکز پاکستان میں ہیں۔ ماضی میں اس طرح بھی ہوا ہے کہ ایرانی سرحدی محافظین کو اغوا کرکے پاکستان لایا گیا تھا اور پاکستانی حکام نے ان کو چھڑا کر ایران کے حوالے کیا تھا۔

سفارتی تعلقات میں پڑوسی ممالک کی اپنی اہمیت اور مقام ہے ۔ سرحدی تنازعات اور تعلقات میں مسائل کے باوجود شاید اب بہت کم پڑوسی ممالک ایسے ہوں گے جن کے آپس کے تعلقات اتنے گھمبیر اور پیچیدہ ہوں جتنا پاکستان کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ ہیں، کیونکہ اب سفارتی تعلقات میں علاقائی تعاون اور تعلقات کو معمول پر لانے کا رحجان ہے ۔ علاقائی رقابتوں اور اختلافات کی وجہ سے اگر کسی خطے میں پراکسی جنگیں ہو رہی ہیں بھی تو وہ اتنی بھیانک اور خون ریز نہیں جتنی ہمارے علاقے میں ہیں ۔ مہذب اقوام اپنے اختلافات اور اثرورسوخ اور برتری کے لئے جنگ اب فوجی ذرائع سے کم بلکہ سیاسی اور تجارتی تعلقات کے ذریعے لڑتی ہے ۔ اگر چار پڑوسیوں میں سے تین اپنے مسلح مخالفین کی حمایت کا برائے راست الزام پاکستان پر لگا رہے ہیں اور چوتھے یعنی چین کے مسلح مخالفین ماضی قریب تک پاک-افغان سرحدی علاقوں میں موجود تھے اور آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوئے بلکہ ادھر اُدھر ہوگئے ہیں، یہ معاملات کی سنگینی کی طرف اشارہ ہے ۔ پاکستانی پالیسی سازوں کو حالات کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے یہ صورتحال کسی طور پر بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ۔

پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کے سنگین واقعات دشمنی اور مخاصمت کے جذبات کو عوامی سطح پر پھیلا رہے ہیں اور انڈیا کے بعد اب افغانستان میں بھی پاکستان مخالف جذبات زوروں پر ہیں ۔ اس کے لئے صرف علاقائی حریفوں کو موردالزام ٹھہرانا اور حالات کو خراب کرنے کی ذمہ داری سے اپنے آپ کو مبرا سمجھنا اور بتانا چالاکی تو ہو سکتی ہے، دانشمندی نہیں ۔ سب سے اولین اور زیادہ ذمہ داری پاکستانی پالیسی سازوں پر عائد ہوتی ہے ،پھر دوسروں پر ۔ افغانوں میں بڑھتے ہوئے پاکستان مخالف مخاصمانہ جذبات کی بنیادی وجہ پاکستان کی افغان پالیسی ہے ۔ مخاصمانہ جذبات کی ایک وجہ طالبان کو پناہ دینا اور افغانستان میں ان کی پر تشدد سرگرمیاں ہیں جن میں زیادہ تر عام شہری مر رہے ہیں ۔اس طرح ایران میں بھی پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات اور ایران مخالف جیش العدل جیسی تنظیموں کی موجودگی کی وجہ سے نفرت اور غم و غصہ بڑھ رہا ہے ۔ مشرق وسطی میں نئی سٹرٹیجک صف بندیاں اور ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وارز میں ممکنہ اور متوقع اضافے کا اثر لا محالہ پاکستان پر بھی پڑے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان کے ریاستی اداروں میں کٹر سُنی مذہبی خیالات کی موجودگی اور نفوذ اور مضبوط سعودی لابی کے پیش نظر ایران اور پاکستان کے تعلقات مزید بگڑنے کا خدشہ ہے۔اس لئے اگر ابھرتے ہوئے سٹرٹیجک چیلنجوں کا صحیح ادراک نہیں کیا گیا اور اس کے لئے مناسب منصوبہ بندی اور پالیسیوں پر نظرثانی نہیں کی گئی تو پاکستان کی داخلی اور خارجی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے ۔ اس کے لئے پالیسی سازوں کو عسکریت پسندوں سے مکمل قطع تعلق کرنا چاہیے ۔ گُڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے اور عسکریت پسندی کا ایک پالیسی ذرائع یا ہتھیار کے طور پر استعمال تباہ کن ثابت ہو رہا ہے ۔ اس پالیسی نے پاکستان کو سفارتی تنہائی کے ساتھ ساتھ اندرون ملک نہ ختم ہونی والی دہشت گردی سے دوچار کردیا ہے ۔ ہمسایوں کے رستے خون پر خوش ہونا انتہائی حماقت ہے ۔ ہمسایوں کو ڈسوانے کے لئے سانپ تو پالے مگر اب وہ سانپ ہمیں بھی ڈس رہا ہے ۔

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply