• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیالکوٹ کا واقعہ ، قومی سلامتی اور اسلامو فوبیا(2)۔۔افتخار گیلانی

سیالکوٹ کا واقعہ ، قومی سلامتی اور اسلامو فوبیا(2)۔۔افتخار گیلانی

آخر میں یہ نوجوان پکے پھلوں کی طرح ان سیکورٹی ایجنسیوں کے بنے جال میں گر جاتے ہیں اور اگر ان کا انکاونٹر نہ ہوجائے ، تو زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزارتے ہیں۔میڈیا میں خبر آتی ہے، کہ دہشت گردوں کے ایک بڑے نیٹ ورک کا پردہ فاش کیا گیا۔ مگر اس کا سرغنہ یا ایک دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ان پکڑے گئے افراد کو بتایا جاتا ہے، کہ ازراہ ترحم انکو جیل بھیجا جاتا ہے، ورنہ انکا انکاونٹر لازمی تھا۔ وہ بھی پولیس اور اداروں کے احسان مند رہتے ہیں، کہ مارنے کے بجائے انکو جیل بھیج دیا گیا، جہا ں اگلے سات تا دس سال گزارنے کے بعد وہ رہا ہوجاتے ہیں۔ وادی کشمیر کے تجارتی اور سیاسی لحاظ سے اہم قصبہ سوپور میں اسکول اور کالج کے دور میں ، میں میر سید علی ہمدانی کی خانقاہ میں نماز جمعہ ادا کرتا تھا۔ نماز سے قبل شمالی کشمیر کے مفتی اعظم مولوی غلام حسن مسلم امت میں خلقشار اور تفرقہ کا ذکر کرتے ہوئے، اتحاد بین المسلمین کیلئے رقت آمیزدعا کرواتے تھے۔مگر فوراً ہی ان کا ٹریک تبدیل ہو جاتا تھا۔ وحدت کا درس دینے کے چند منٹ بعدہی وہ جماعت اسلامی، مولانا مودودی، ایرانی انقلاب وغیرہ کو ہدف تنقید بناکر ان کی اسلاف و صحابہ کے تیئں دشمنی کا نقشہ کھنچتے ۔جب وہ بیان کرتے تھے کہ چند عناصر ، ان کا نشانہ جماعت اسلامی سے متعلق ہوتا تھا ، میر سید علی ہمدانی کا تحریر کردہ وظیفہ اور اد فتحیہ پڑھنے سے لوگو ں کو روکتے ہیں، تو حاضرین کی ٓانکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے اوراد فتحیہ ، وحدانیت پر مشتمل کلام ہے۔ جماعت اسلامی سے وابستہ قاری سیف الدین نے ہی اسکا کشمیری اور اردو میں ترجمہ بھی کیا ہوا تھا۔ جب میں دہلی منتقل ہوا اور 2002میں مجھے تہار جیل میں ایام اسیر ی گزارنے سے قبل دہلی پولیس کی اسپشل سیل کے انٹریگشن روم میں رکھا گیا ، تو ایک دن خفیہ ادارے کا ایک بزرگ اہلکار راقم سے ملنے آیا۔ یہ اہلکار ریٹائرمنٹ کے قریب تھا، سوپور کے حال و احوال پوچھنے لگا۔ میں اس کے استفسار کو انٹروگیشن کا ہی حصہ سمجھ رہا تھا۔ مگر اس نے جلد ہی تشریح کی ، کہ وہ کافی مدت تک سوپورمیں ڈیوٹی دے چکا ہے، اور وہاں کے گلی کوچوں اور مقتدر افراد سے واقفیت کی یاد تازہ کرنے کیلئے ملنے آیا ہے۔باتوں باتوں میں ہی اس نے مفتی صاحب کا بھی ذکر چھیڑا، کہ کس طرح 1975 میں شیخ محمد عبداللہ کو دام حکومت میں پھنسا کررہے سہے جذبہ آزادی کر جڑ سے اکھاڑنے کیلئے جماعت اسلامی اور دیگر ایسی تنظیموں کا نظریاتی توڑ کرنے کیلئے مقامی پیروں اور مولوئیوں کو آلہ کار بنایاگیا۔سادگی میں اعتقادی اور بد اعتقادی کا ہوا کھڑا کرکے جماعت کے چند افراد نے بھی اسکا بھر پور جواز فراہم کرا دیا تھا۔ ہندو ہونے کے باوجود یہ اہلکار اسلام پر بھرپور عبور رکھتا تھا۔ سبھی فرقوں کے عقائد اس کو ازبر تھے۔شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز کے فرمودات اور انکی مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے ساتھ اختلافات، جن کا راقم کو بھی ادراک نہیں تھا،پر سیرحاصل لیکچر سن کر میں اس کی اسلام کے تئیں معلومات کا قائل ہوگیا۔معلوم نہیں کہ اتحاد بین المسلمین کا درد سینے میں سمیٹے مفتی اعظم صاحب، اسی اتحاد کو پار ہ پارہ کرنے کیلئے کیوں مجبور ہو جاتے تھے؟ مگر اس خفیہ ادارے کے اس بزرگ اہلکار نے مجھے ماضی کی ا ن تاروں کو جوڑنے اور سوچنے پر مجبور کیا، کہ کس طرح اچانک مولوی صاحب وعظ و نصیحت کرتے کرتے ٹریک سے اتر جاتے تھے۔یہ الگ بات ہے کہ جب کشمیر میں عسکری دور کا آغاز ہوا، تو بارہمولہ میں بھارتی فوج کی 19ویں ڈویژن کے کمانڈر جوگندر جسونت سنگھ، جو بعد میں آرمی چیف بھی بنے، نے سب سے پہلے مولویوں اور مساجد کے اماموں کوہی تختہ مشق بنایا۔ سوپور کی خانقاہ کے اس معروف 70سالہ واعظ کو بھی طلب کیا گیا، اور ان کے جھریوں زدہ ہاتھوں پر گرم استری پھیر دی گئی تھی۔ کانگریس کے ریاستی یونٹ کے صدر غلام رسول کی کاوشوں کے بعد جب انکو رہائی ملی اور جب میں ان سے ملنے گیا، تو دیکھا کہ ان کے ہاتھوں کی جلد جھلس چکی تھی، چربی اور گوشت کی تہیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔مولوی صاحب مرحوم کو اب اللہ کروٹ کروٹ جنت عطا کرے۔آمین۔ ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد ہے کہ قوم کے لیڈران نزاکتوں کا ادراک کرتے ہوئے، گلی ، محلے کی مساجد پر نظر رکھیں، کہ وہاں مقامی امام یا مولوی کس طرح کی وعظ خوانی کر رہے ہیں ؟ کیا اس سے معصوم اذہان کو قربانی کا بکرا تو نہیں بنایا جارہا ہے؟ ناموس رسالت کی اہمیت اور عوام کو اسکی افادیت اور معنویت بتانا اور اس پر اصرار کرنا اپنی جگہ ، مگر اس کو بنیاد بناکر عوام کوقانون ہاتھ میں لینے کیلئے اکسانے والوں کو بھی کیفر کردار تک پہچانا چاہیے۔ حیرت ہوتی ہے کہ تمام تر تفاوات اور مختلف جداگانہ قومیتوں کے باوجود بھارت نے ’’آئیڈیا آف انڈیا ‘‘کو کامیابی کے ساتھ تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی ہے، گو کہ 2014کے بعد ہندو قوم پرستوں کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے اس میں دراڑیں پڑ رہی ہیں، مگر پاکستان ایک ہی مذہب اور چند ہی لسانی قومیتوں کے باوجود شناخت کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار رہا ہے۔ چونکہ معصول اذہان کو روز وعظوں کے ذریعے انجکشن دینا بھی قومی سلامتی کے زمرے میں آتا ہے ، اسلئے ترکی یا سعودی عرب یا دیگر مسلم ممالک کی پیروی کرتے ہوئے، یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ ممبر پر واقعی کوئی سند یافتہ اور کھلے ذہن کا عالم ہی براجمان ہے۔ سیالکوٹ کا واقعہ چیخ چیخ کر یہ پیغام دے رہا ہے ۔یہ سچ ہے کہ اس میں کوئی دینی تنظیم ملوث نہیں تھی، مگر جن افراد نے یہ قدم اٹھایا، وہ کسی کے زیر اثر تو ضرور رہے ہونگے۔ صرف اس واقعہ کی مذمت کر نا ہی کافی نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات کے تدارک کیلئے عملی اقدامات اٹھانا بھی انتہائی ضروری ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply