پاکستان ریلوے، کل اور آج۔۔۔قمر نقیب خان

پاکستان ریلوے، پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہم ہے جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر آمد و رفت کی سستی ترین، تیز رفتار اور آرام دہ سہولیات فراہم کرتا ہے۔

پاکستان میں ریلوے کا آغاز 13 مئی 1861ء میں ہوا جب کراچی سے کوٹری ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔  1865ء میں لاہور – ملتان ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ 1876ء میں دریائے راوی, دریائے چناب اور دریائے جہلم پر پلوں کی تعمیر مکمل کی گئی، 1882ء میں راولپنڈی – پشاور ریلوے لائن کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ 25 مئی 1900ء کو کوٹری پل کی تعمیر مکمل ہونے سے کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن مکمل ہو گئی۔ یوں انگریزی حکومت نے انتالیس سال میں پورا ریلوے ٹریک تمام پُلوں اور ریلوے اسٹیشنوں سمیت مکمل کر دیا.

1947ء میں جب پاکستان آزاد ہوا تو انگریز نے گیارہ ہزار کلومیٹر ریلوے ٹریک بچھایا ہوا تھا، آزادی حاصل کرنے کے بعد محکمہ ریلوے پاکستانیوں کے ہتھے چڑھ گیا. پاکستانیوں نے ریلوے کے کئی روٹ بند کر دئیے. کراچی لوکل ٹرین ختم ہو گئی، مین لائن پر بیسیوں اسٹیشن متروک کر دئیے گئے انگریز کی چھوڑی ہوئی گیارہ ہزار کلومیٹر ریلوے لائن میں سے دو ہزار کلومیٹر ریلوے ٹریک بیچ کر کھا گئے. آج پاکستان کے پاس صرف نو ہزار کلومیٹر ریلوے ٹریک بچا ہے. پشاور سے لنڈی کوتل ٹرین بند، پشاور سے بنوں ٹرین بند، نوشہرہ سے مردان ٹرین بند، اسی طرح اندرون پنجاب اور اندرون سندھ چلنے والی ٹرینیں بند ہو چکی ہیں. ریلوے اسٹیشنوں کی عمارتیں تباہ حال ہیں، عدم توجہی کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، کئی اسٹیشنز پر قبضہ کیا جا چکا ہے اور کئی ریلوے اسٹیشنز جانور باندھنے کے کام آتے ہیں، ہربنس پورہ لاہور کے ریلوے اسٹیشن کی تصویر دیکھیں  اور اندازہ لگائیں کہ لاہور شہر کا یہ حال ہے تو پھر سندھ اور بلوچستان کا کیا حال ہو گا. یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سو سال پہلے تو ان ریلوے لائنز اور اسٹیشنز کی ضرورت تھی لیکن سو سال بعد ضرورت بڑھنے کی بجائے ختم ہو گئی؟

دنیا انڈر گراؤنڈ ریلوے سے اوور ہیڈ ریلوے پہنچی اور پھر بُلٹ ٹرین بنا لی، دنیا نے سیکھا کہ ڈیزل انجن بہت مہنگا پڑتا ہے اور اس کی ریپئرنگ بھی بہت مہنگی ہے. انجن کے پرزے جلدی گھس جاتے ہیں جس کی وجہ سے بار بار تبدیل کرنے پڑتے ہیں، اور ماحولیاتی آلودگی اس کے علاوہ.. دنیا نے ڈیزل انجن ترک کیے اور ٹرینیں بجلی سے چلانی شروع کر دیں. بجلی کا انجن سستا تھا، تیز رفتار تھا، کم خرچ تھا اور آلودگی بھی نہیں تھی. پاکستان نے بھی ملتان خانیوال کے درمیان بجلی کے ٹریک بچھائے لیکن نہ بجلی ہوئی نہ ہی انجنوں کی دیکھ بھال کی گئی یوں اربوں روپے کے انجن کوڑیوں کے بھاؤ کباڑیوں کو بیچ دئیے گئے.

دنیا نے دیکھا کہ بجلی کا انجن سستا تو ہے لیکن ڈھائی تین سو کلومیٹر سے زیادہ رفتار پر نہیں جا سکتا، انہوں نے مقناطیسی فیلڈ کا استعمال کیا اور پوری ٹرین زمین سے ہوا میں اٹھا لی. آج جاپان چھے سو کلومیٹر کی رفتار سے ٹرین چلا رہا ہے جبکہ ہم پاکستانی ابھی تک 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک بھی نہیں پہنچ سکے. ہمارے گارڈ آج بھی سیٹی بجا کر سبز اور لال جھنڈی دکھا کر ٹرین روک رہے ہیں، رات میں سرخ لالٹین سے کام لیا جا رہا ہے. پھاٹک والوں کے پاس پچاس سال پرانا ٹیلی فونک نظام پڑا ہوا ہے، ہم آج بھی ٹرین کے پہیے ہتھوڑا مار کر چیک کر رہے ہیں، ٹن ٹن کی آواز ہو تو ٹھیک ہے ٹھک ٹھک کی آواز ہو تو خراب ہے. ریلوے ٹریک انسپیکشن کے لیے آج بھی سو سال پرانا ٹھیلہ استعمال کر رہے ہیں جسے دو بندے دھکا لگاتے ہیں. ٹرین کا ٹریک تبدیل کرنے کے لیے آج بھی manual نظام چل رہا ہے. چار چھے گھنٹے ٹرین لیٹ ہونا ہمارے ہاں معمولی بات ہے. اس سال رحیم یار خان کے قریب ایک مال گاڑی الٹنے سے ٹرینیں پندرہ سے بیس گھنٹے لیٹ ہوئیں، ہمارے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بارہ گھنٹے سے زائد لیٹ ہونے والے مسافروں کو آدھا کرایہ واپس دیتے ہوئے حاتم طائی کی قبر کو لات ماری..

اس وقت پاکستان کے پاس صرف پانچ اہم روٹ ہیں :-

1. کراچی تا پشاور (مین لائن براستہ روہڑی، خانیوال، لاہور اور راولپنڈی)

2. روہڑی تا کوئٹہ

3. خانیوال تا فیصل آباد

4. لاہور تا فیصل آباد

5. لاہور تا سیالکوٹ براستہ ناروال

ان پانچ روٹس پر پچیس تیس مختلف مسافر ٹرینیں چل رہی ہیں، جن میں عوامی ایکسپریس، تیز گام، جعفر ایکسپریس، خیبر میل، قراقرم ایکسپریس، علامہ اقبال ایکسپریس، بولان میل وغیرہ شامل ہیں. جبکہ ان تیس ٹرینوں کے لیے سنہ 2011 تک بیاسی ہزار ملازمین تھے. سیاسی بھرتیوں نے محکمہ ریلوے کا بیڑا غرق کر دیا ہے لیکن اس کا علاج کسی حکومت کے پاس نہیں. اس عید پر بھی محکمہ ریلوے نے مسافروں کو شدید ذلیل و خوار کیا ہے. شدید گرمی میں پینے کے پانی کے لیے مسافر ترستے رہے، بوگیوں کے اندر سوئچ بورڈ خراب تھے. اسٹیشنوں پر بھی چارجنگ لگانے کے سوئچ بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ خراب پڑے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

2014 میں لیگی حکومت کی وزارت ریلوے نے محکمے کی تعمیر و ترقی کے لئے ویژن 2025 پیش کیا جس کا مقصد ریلوے کے نظام کو بہتر کرنا، عوام کا ریلوے پر اعتماد بحال کرنا اور محکمے کی سالانہ آمدن میں اضافہ شامل تھا۔ حکومت نے زور لگا کر سی پیک منصوبے میں ریلوے کو بھی شامل کروا لیا ہے جس کے بعد چین نے پاکستان ریلوے کو کافی سارا پیسہ اور ٹیکنیکل سپورٹ دی ہے. چینی معاہدے کے مطابق 2017 تک نئے انجنوں کی خریداری، انفرااسٹرکچر میں بہتری، ٹرینوں کی رفتار میں اضافہ، وقت کی پابندی اور مسافر بردار گاڑیوں میں اضافہ کرنا  تھا لیکن ابھی تک اس میں سے کوئی ٹارگٹ اچیو نہیں کیا جا سکا..

Facebook Comments

قمر نقیب خان
واجبی تعلیم کے بعد بقدر زیست رزق حلال کی تلاش میں نگری نگری پھرا مسافر..!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پاکستان ریلوے، کل اور آج۔۔۔قمر نقیب خان

  1. نہ بابا نہ….. لگتا ہے آپ نے پچھلے پانچ سال ٹرین پہ سفر نہیں کیا. اس حکومت سے لاکھ اختلافات کے باوجود ریلوے کی بحالی ان کا تاریخی کام ہے اور اس پر بجا طور فخر کر سکتے ہیں.
    میں تو قریباً دو ماہ بعد آتا جاتا رہتا ہوں….گھر بیٹھے ٹکٹ کرواؤ اور بروقت پہنچ جاؤ.

Leave a Reply