گلگت بلتستان میں غدار سٹیٹ سبجیکٹ رول۔۔۔شیر علی انجم

محترم قارئین، گلگت بلتستان کی بین الاقوامی اور ملکی تناظر میں آئینی اور قانونی حیثیت اور اس خطے کی اکہتر سالہ سیاسی محرومیوں کے حوالے پاکستان کے شہر ی  آگاہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ اس خطے کے مسائل اور قومی تشخص کے معاملے پر ملکی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بحث نہ ہونے کے برار ہے۔ البتہ اس خطے کی قدرتی حسن کے حوالے سے دنیا معترف ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان بھی پاکستان کے چاروں صوبوں کی طرح قدرتی حُسن اور معدنی وسائل سے مالا مال چار ایٹمی ممالک کے سنگم پر واقع ایک اہم آئینی اور قانونی اکائی ہے۔ درحقیقت ایسا بالکل نہیں ہے اس خطےپر 1846 سے لیکر یکم نومبر 1947 تک سکھوں اور ڈوگروں نے حکمرانی کی ہے اور 1947 میں مہاراجہ کشمیرکا الحاق بھارت کے اعلان کے بعد یہاں کے عوام نے ڈوگرہ سلطنت سے آزادی حاصل کرکے اپنی ریاست قائم کی جو صرف 16 دن تک اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ یوں اس خطے کو آزادی کے بعد آزادی نصیب ہوئی اور نہ ہی یہ خطہ مکمل طور پر پاکستان میں شامل ہوسکا۔
لیکن ناکام بغاوت کے بعد یہاں ایف سی آر نافذ ہوگیا اور آزادی کے ٹھیک ڈیرھ برس بعد پاکستان کے وزیربے محکمہ مشتاق گورمانی اور کشمیر ی رہنما چودہدی غلام عباس اور سردار ابراہم کی ملی بھگت سے ایک معاہدہ،جسے معاہدہ کراچی کہا جاتا ہے،کے تحت یہاں کے عوام کو اعتماد میں لئے بغیر مسئلہ کشمیر کے حل تک کیلئے پاکستان کےزیر انتظام چلاگیا۔ لیکن اُس سے پہلےموجود آزاد کشمیر پر قبائلیوں کی لشکر کشی کے بعد جواہر لال نہرو یکم جنوری 1948 کو اقوام متحدہ چلا گیا جہاں اس مسئلے کی حل کیلئے ایک کمیشن بنی جسے یو این سی آئی پی کمیشن کہا جاتا ہے۔ اُس کمیشن میں پاکستان، ہندوستان اور اقوام متحدہ فریق بنے اور طے پایا کہ ریاست جموں کشمیر پر کسی قسم کی فیصلہ سازی کیلئے تینوں فریقین کا ایک ٹیبل پر بیٹھ کر فیصلہ کرنا ضروری ہے، اُس کمیشن نے گلگت اورمظفرآباد میں لوکل اتھارٹی کے قیام کا حکم دیا لیکن بدقسمتی سے مظفر آبادمیں تو اقوام متحدہ کے حکم پرعملدرآمد ہوگیامگر گلگت بلتستان کو معاہدہ کراچی کے ساتھ باندھ کر اس خطے کے  قومی تشخص کو مکمل طور پر منجمد کردیا جو آج تک چل رہا ہے۔اس وقت گلگت بلتستان کے  قومی تشخص کے سوال پر  نئی نسل میں لاوا پک رہا ہے لوگ اکہتر سالہ محرمیوں کے اصل ذمہ داروں کو جاننا چاہتا ہے ایسے میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا کردار اپنے مراعات اور عہدوں کے تحفظ سے بڑھ کو قومی معاملے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہا جو اس خطے کی نئی نسل کو مزید مایوسی کی طرف دھکیل رہا ہے لیکن ذمہ داروں کو اس بات کا ادارک نہیں۔
محترم قارئین گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر سے نتھی کرنے یا ہونے کے بعد اس خطے کی محرومیاں ختم کرنے کیلئے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر قانونی پیچیدگیاں اپنی جگہ ،لیکن یہاں حقوق کے نام پر مخملی نعروں اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے من گھرٹ دعووں سے اس وقت ریاست پاکستان بھی پریشان نظر آتا ہے۔ کیونکہ یہ بات ایک تلخ حقیقت ہے کہ ریاست چاہتے ہوئے بھی گلگت بلتستان کو وہ حقوق نہیں دے سکتے جس کے بارے  گلگت بلتستان میں مذہبی اور وفاقی سیاسی جماعتیں نعرہ لگاتے ہیں ۔کہا جارہا ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے انڈیا کے عزائم کی تکمیل اور لاکھوں کشمیریوں کی آزادی کیلئے جاری قربانیاں رائیگاں جائیں گی۔ ماہرین کی جانب سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جب تک گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل ہونے کیلئے اقوام متحدہ کی موجودگی میں رائے شماری نہیں ہوتی  یہ ہمارا خواب اور ارمان ضرور ہے لیکن عملی طور پر فی الحال ایسا ممکن نہیں ۔البتہ جنرل مشرف فارمولے پر عمل درآمد کرکے ریاست جموں کشمیر کو اسی حالت میں تقسیم کرتے ہیں تو بھی گلگت بلتستان صوبہ نہیں بلکہ کسی صوبے کا حصہ ضرور بن سکتا ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان میں عوامی سطح پر جوسوال اُٹھ رہا ہے اُس میں کہا جارہا ہے کہ جب حقوق کی بات آتے ہے  تو کشمیر کے مسئلے کا حوالہ دیا جاتا ہے اور اُس بنیاد پر متنازعہ حقوق سے بھی گلگت بلتستان آج تک محروم ہیں۔
ویسے تو گلگت بلتستان کا مسئلہ سیاسی ہے لیکن یہاں کے کچھ سیاسی افراد   اس مسئلے کو ہر دور میں عدالتوں میں بھی لیکر گئے اور متعدد بار اس حوالے سے فیصلے آئے  اور کہا گیا کہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کی ایک قانونی اکائی ہے لیکن اس خطے کو چاروں صوبوں کے برابر حقوق دینا بھی ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سےجو تازہ فیصلہ آیا ہےاُس میں سات رکنی لارجز بنچ نے 17 جنوری 2019ء کو گلگت بلتستان کی آئینی اور جغرافیائی حیثیت پراپنے فیصلے میں ایک بار پھر حکومت پاکستا ن کے دیرینہ موقف کا اعاہ کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے اور ریاست جموں و کشمیر کی اکائی ہے۔ اس لئے گلگت بلتستان کو آئین پاکستان میں شامل کرکے صوبہ نہیں بنایا جا سکتا جب تک استصواب رائے کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل سامنے نہیں آتا۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلے کے  پیرا نمبر 13 میں لکھتا ہے کہ دو خطوں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تعلق رکھنا پاکستان کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔1948 میں UNCIP نے ان خطوں کی مقامی خود اختیاراتی حکومت کے  وجود کو تسلیم کیا ہے ۔ عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ ہم یقینا ًًً گلگت بلتستان کیلئے فکرمند ہیں لیکن اس خطےکا متنازعہ جموں و کشمیر کا حصہ ہونے کی بنا پر پاکستان میں شامل نہیں کر سکتے۔ جبکہ یہ خطہ ہمیشہ حکومت پاکستان کے مکمل انتظامی قابو میں ہے۔
سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان پر حکومت پاکستان کے دیرینہ اور اصولی موقف پر سمجھوتہ کئے بغیر اور گلگت بلتستان کو آئین پاکستان کی چھتری میں جگہ دئیے بغیر گلگت بلتستان میں انتظامی اصطلاحات کے بارے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ گلگت بلتستان کیلئے سرتاج عزیز کمیٹی کی  سفارشات کی روشنی میں نیا پیکج تیار کریں ۔ متنازعہ گلگت بلتستان پر حکومت پاکستان کی انتظامی گرفت کو مزید سخت کرنے کیلئے کچھ عدالتی احکامات بھی جاری کیے ہیں اور ان اختیارات کو گلگت بلتستان کے عوامی منتخب نمائندوں سے اٹھا کر صدر پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان کو منتقل کئے ہیں۔ گلگت بلتستان کو نہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں لوکل اتھارٹی حکومت دینے کا حکم صادر کیا ہے اور نہ ہی آزاد کشمیر طرز کے  انتظامی سیٹ اپ دینے کا کہا گیا ہے۔ اسٹیٹ سبجیکٹ رولز جو کہ متنازعہ خطے کی بنیادی پہچان ہے اس کی خلاف ورزی سے بھی حکومت کو نہیں روکا گیا ہے۔یوں اس وقت گلگت بلتستان کے سیاسی دفاعی اور جعرافیائی اہمیت اور موجودہ بین الاقوامی گریٹ گم کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان شاید اگلے پچاس برسوں میں وجود برقرار رکھنے میں شاید ہی کامیاب رہے کیونکہ یہاں عوامی نمائندے خود اس وقت اپنے خطے کے حق میں نہیں۔ اس وقت گلگت بلتستان کو متنازعہ حیثیت کے باوجود حقوق میسر نہیں وہیں قانون باشندہ ریاست جموں کشمیر سٹیٹ سبجیکٹ نافذ نہ ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر غیر مقامیوں کو گلگت بلتستان میں بسایا جارہااور بالخصوص سی پیک منصوبے کی وجہ سے غیر مقامی لوگ بڑے پیمانے پر گلگت بلتستان منتقل ہونگے اور اس سے گلگت بلتستان کے عوام جو پہلے ہی بدترین معاشی استحصالی کے شکار ہیں اور اس میں مزید اضافہ ہوگا۔
یہاں یہ بات بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ سٹیٹ سبجیکٹ رولز یعنی وہ قانون جسے مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927 میں متعارف کرایاتھاجوکہ باشندگان ریاست کو بنیادی طور پر شہریت اور شہری حقوق فراہم کرتی ہے۔ مذکورہ قانون ریاستی عوام کی شہریت اور ریاستی عوام کے حقوق کی ضمانت میں اپنی مثال آپ ہے۔ باشندہ ریاست قانون کے مطابق ریاستی باشندگان کو چار اہم حصوں پر مشتمل قرار دیا گیا، پہلے دو میں ان ادوار کا ذکر ہے کہ جن میں یہاں مستقل آباد ہونے والوں کو شہری قرار دیا گیا۔ تیسرے درجے میں جدید شہریت کے تقا ضوں کے تحت دس سالہ مستقل سکونت کے بعد اجازت اور رعایت نامہ کے ذریعے سکونت میں توسیع یا شہریت کے حصول کا طریقہ کار وضع کیا گیا۔ چوتھے درجہ میں ان صنعتی وکاروباری مراکزجو ریاست و ریاستی عوام کیلئے مفید ہوں ان مراکز کو بھی تحفظ اور شہری حیثیت دی گئی تھی اس کے علاوہ کئی اور اہم شقات ہے جو سابق ریاست جموں کشمیر کے تمام خطوں کو مکمل قانونی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ یعنی اس قانون کو آج بھی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے ایک محافظ کی حیثیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھارتی مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں باشندہ ریاست قانون (SSR۔1927) مقامی دستور کا حصہ ہے۔ یہی وہ قانون ہے جس نے انڈیا اور جموں کشمیر کے درمیان قانونی دیوار جموں کشمیر آئین اور انڈین آئین میں آرٹیکل 370 کی شکل میں ریاست کی خصوصی حیثیت اور ریاستی تشخص کو آ ج تک بحال رکھا ہواہے۔یہ باشندہ ریاست قانون ہی ہے جس نے پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر میں کاروبار پر حاوی غیر ریاستی سرمایہ دار طبقہ کو جائیداد کے مالکانہ حقوق سے دور رکھا ہوا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان کی آزادی کو تسلیم نہ کرنے اور متنازعہ حیثیت کے باوجود بھٹودور حکومت میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزی کا عمل شروع ہوا اور 1974 میں اُس وقت کے ڈی سی نے یہ فیصلہ کیا کہ جن بھی غیرریاستی باشندے نے گزشتہ پانچ سالوں میں گلگت بلتستان کے اندر زمین خریدی ہوئی ہے وہ یہاں کا ڈومیسائل حاصل کرسکتےہیں۔ اسی طرح یہ سلسلہ آگے جاکر 1956 میں سکندر مرزا کے دور میں اُس وقت کو پولٹیکل سردار جان محمد خان نے ایک سازش کے تحت اُس وقت کچھ مقامی لوگوں کو خریدے اور اس بہانے سے گلگت بلتستان میں سیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کی جس کے مطابق کہا گیا کہ باہر سے لوگ نہ آئے گا تو یہاں کاروبار کیسے ہوگا نظام زندگی کیسے چلے گا۔ یہی فارمولہ آج بھی گلگت بلتستان کے حوالے سے نافذ ہیں۔
محترم قارئین سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے بعد گلگت بلتستان میں متنازعہ حیثیت کی بحالی کیلئے تحریک ایک مرتبہ پھر زور پکڑ لیا ہے اقتدار کی راہ دیکھتے پاکستان تحریک انصاف(جن کے منشور میں بھی گلگت بلتستان صوبےکا ذکر نہیں) لیکن لوکل سطح پر عبوری آئینی کا نعرہ لگا کر سیاسی ساکھ پیدا کرنے کی ناممکن کوشش کے علاوہ گلگت بلتستان کے تما م سٹیک ہولڈر ایک پیج پر نظر آتا ہے ۔ سب کا یہی مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مزید ابہام باقی نہ رہے لہذا اس خطے کی سیاسی محرومیاں ختم کرنے کیلئے 13اگست 1948 یو این سی آئی پی کے قراداد کی روشنی میں حکومت پاکستان پر لازم ہے کہ گلگت بلتستان کو ان کے آئینی حقوق کے حصول اور استعمال کی خاطر لوکل اتھارٹی یعنی مقامی حکومت دی جائے جس میں سب سے اہم نکتہ سٹیٹ سبجیکٹ رول کا ہے ۔
قارئین گزشتہ ماہ اس حوالے سے مسلسل عوامی مطالبے کے پیش نظر موجوہ وقت میں مسلم لیگ ن میں شامل اسپیکر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی فدا محمد ناشاد نے اخبار ی بیان دیا کہ سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی قانون ساز اسمبلی میں ایک قراداد سے رُک سکتا ہے۔ یہی وجہ ہےقانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کپٹن ریٹائرڈ محمد شفیع خان اور دیگر اپوزیشن اراکین قوم پرست رہنما نواز خان ناجی او ر پیپلزپارٹی کے جاوید حسین کی جانب سے گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی روکنے کیلئے سمری تیار کی گئی جسے باقاعدہ طور پر اسمبلی میں زیر بحث لانے کیلئے ہاوس ایڈوائزی کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا۔ لیکن میڈیا رپورٹ کے مطابق ایڈوائزی کمیٹی میں اس بل کی سب سے پہلے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے اسپیکر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی فدا محمد ناشاد اور مسلم لیگ ن کے وزیر قانون اورنگزیب خان نے دیگر ممبران کی رائے لئے بغیر ہی بل کو غداری قرار دیکر مستردکردیا۔
اس صورت حال سے یہ بات واضح ہوگیا کہ گلگت بلتستان کی اکہتر سالہ محرمیوں کا ذمہ دار کوئی باہر کا بندہ یا ادارے نہیں بلکہ مقامی سطح پر وہ تمام لوگ ہیں جو عوام سے ووٹ عوامی حقوق کی پاسداری کیلئے لیتے ہیں مگر عوام کو گندم سبسڈی میں الجھا کر قومی حقوق کی سودا بازی کرتے ہیں۔ ورنہ جب اسی تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کی بنیاد پر جموں کشمیر لداخ اور آزاد کشمیر میں یہ قانون نافذ ہے تو گلگت بلتستان میں اس قانون کی خلاف ورزی روکنا غدار کیسے ہوگا سوچنے کا مقام ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام اب حقوق کی راہ میں رکاوٹ گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران کو پہچانیں اور سمجھ جائیں کہ ماضی میں انہی عناصر کی جانب سے کشمیرقیادت اور کشمیری عوام کو گلگت بلتستان کے حقوق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیکر بیوقوف بنایا جارہا تھامگر گزشتہ ہفتے آذاد کشمیر اسمبلی سے متفقہ طور پر گلگت بلتستان کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں متنازعہ بنیاد پر حقوق دینے کا مطالبہ سامنے آیا ہے لیکن گلگت بلتستان اسمبلی کے اسپیکر کو سٹیٹ سبجیکٹ کے معاملے پر اسمبلی میں بحث کرنا غداری لگتا ہے ۔لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ غیر سے اُمید لگانے سے پہلے آستین کے سانپوں کو پہچانیں جنہوں آج تک گلگت بلتستان کے عوام کو قومیت ،لسانیت اور مسالک اور اپنے مفادات کیلئے قربان اور تقسیم کرکے عوام کو اصل قومی بینائے سے دور رکھ کر مفادات اور مراعات وصول کرتے رہے۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply