ذرا مختلف سوچنے کی ضرورت۔۔۔نذر حافی

ظلم کی رات ڈھلنے کو ہے، یہ رات ڈھلتے ڈھلتے نجانے کتنے سورج نگل جائے گی، ابھی ہم عید الفطر منانے کی تیاریوں میں ہی تھے کہ مقبوضہ کشمیر میں رائزنگ کشمیر کے ایڈیٹر اور سینیئر صحافی شجاعت بخاری کو دفتر کے باہر تین مسلح موٹر سائیکل سواروں نے گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ کشمیر میں یوں بھی انسانی حقوق کی پامالی اور انسانیت کی آواز کو دبانا روز مرہ کا معمول ہے، تاہم یہ بات اس وقت انتہائی خطرے کی صورت اختیار کر جاتی ہے جب اس طرح کے مظالم پر عالمی برادری چپ سادھ لیتی ہے۔ صحافیوں کی جان و مال کی حفاظت کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال بھی زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔ ایسے میں خود صحافی تنطیموں اور اداروں کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان مظالم کے خلاف آواز بلند کریں اور باہمی یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔۔ دوسری طرف رمضان المبارک کے آخری عشرے میں بدھ کی صبح، سحری سے ذرا پہلے یمن میں الحدیدہ کی بندرگاہ پر سعودی و اماراتی طیاروں نے شب خون مارا اور نہتے یمنیوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا۔

دور کی باتیں کہاں تک کریں، ذرا اپنے ملک پر بھی ایک نگاہ ڈالئے، جہاں 29 رمضان المبارک کی شب کو کوہستان ڈائیوو ٹرمینل فیصل آباد کے سکیورٹی گارڈ نے ایک بس ہوسٹس کو ہراساں کیا اور اس کے احتجاج کرنے پر اسے گولی بھی مار دی۔ تفصیلات کے مطابق ملزم عمر دراز نے مہوش نامی لڑکی کو شادی سے انکار پر فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔ پولیس حکام کے مطابق ملزم عمر دراز نے ڈیوٹی سے گھر واپسی پر مہوش کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی اور مزاحمت پر اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ یہ سب کچھ رمضان المبارک میں ہوا، رمضان المبارک جو ہمیں، صبر، تحمل، خدا شناسی اور ظلم سے بیزاری کا درس دیتا ہے، اس مقدس مہینے کے آخری لمحات میں بھی ہماری دنیا ظلم و ستم سے رنگین رہی، ابھی کشمیر، فلسطین اور غزہ کے دکھ اور ہماری بے حسی کی داستانیں اپنی جگہ ہیں۔ خیر ہمیں تو سیاسی لیڈروں کے شب و روز کی کوریج سے فرصت ہی نہیں، انسانی اقدار کیا ہیں، معاشرتی بے حسی کس درجے کو پہنچ چکی ہے، اجتماعی شعور کس بلا کا نام ہے!!! ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ عمران خان نے ننگے پاوں جا کر عمرہ انجام دیا ہے، مولانا فضل الرحمان کوئی بڑی چال چلنے والے ہیں اور اگلے چند دنوں میں مسلم لیگ نون کے ساتھ مزید کچھ انہونی ہونے والی ہے۔۔۔

ظلم صرف یہ نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ایک نڈر صحافی کو شہید کر دیا گیا ہے، بلکہ ظلم تو یہ بھی ہے کہ پاکستان میں بھی صحافیوں کی زندگی اجیرن ہے اور کئی کو تو کتنے مہینوں سے تنخواہ تک نہیں مل رہی اور ان مسائل کے بارے میں خود صحافی طبقے کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ ظلم صرف یہ نہیں کہ سعودی و اماراتی طیاروں نے الحدیدہ بندرگاہ پر شب خون مارا بلکہ ظلم تو یہ ہے کہ یمن پر سالوں سے جاری اس جارحیت کو روکنے کے لئے امت مسلمہ کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ ظلم صرف یہ نہیں کہ ڈائیوو کے سکیورٹی گارڈ نے بس ہوسٹس کو گولی مار دی بلکہ ظلم تو یہ ہے کہ ہماری اخلاقی اقدار کو سنوارنے والی دینی تنظیموں کو معاشرے کے اخلاقی انحطاط کا احساس ہی نہیں ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جب دینی تنظیمیں خود ہی اپنے مدرسے کو آگ لگا کر اور اپنے لوگوں کو قتل کرکے مخالف فرقے کو بدنام کرنے کی چالیں چلیں گی تو پھر لوگ اخلاق سیکھنے کس کے پاس جائیں گے اور اس سے بھی بڑھ کر ظلم کی بات یہ ہے کہ جب یہ مکر و فریب کرنے والی دینی تنظیمیں لوگوں سے ووٹ مانگیں گی اور اسمبلیوں میں جانے کی باتیں کریں گی تو پھر عوام کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس بکھرے ہوئی عوامی شیرازے کو سمیٹنے اور اخلاقی زوال کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ اربابِ علم و دانش اور پاکستان کا دانش مند طبقہ میدان میں اترے۔ ایک طرف ہمارا معاشرہ دینی اقدار سے دور ہوتا جا رہا ہے اور لوگوں میں انسانیت، مذہبی رواداری، وحدت اور محبت کا عنصر کم ہوتا جا رہا ہے اور دوسری طرف ہماری دینی تنظیموں کا ہم و غم بھی ان دنوں عوامی تعلیم و تربیت کے بجائے روایتی سیاست بنتا جا رہا ہے۔ خصوصاً جس ملک میں کالعدم تنطیمیں بھی نام وغیرہ بدل کر الیکشن لڑنے کے لئے میدان میں اتر رہی ہوں اس ملک کے عوام کو اپنے اردگرد بہت زیادہ خطرات کو محسوس کرنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ ظلم کی رات ڈھلنے کو ہے، لیکن یہ رات ڈھلتے ڈھلتے نجانے کتنے سورج نگل جائے گی، ہمیں رات اور حالات کی تاریکی میں سونے کے بجائے، جاگنے اور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ سوچنے والوں کی دنیا، دنیا والوں کی سوچ سے مختلف ہوتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply