مری کیا ہے؟۔۔حسان عالمگیر عباسی

مری کیا ہے؟۔۔حسان عالمگیر عباسی/ اگر آپ پاکستانی ڈراموں کے شوقین ہیں تو یہ چیز نظر انداز کرنا مشکل ہے کہ ہر ڈرامے میں مشکل کی گھڑیاں ٹالنے کے بعد خوشی کے مواقع آتے ہیں۔ رونے دھونے پیٹنے والے یکدم گنگنانے ناچنے خوشی کے گیت گانے لگتے ہیں۔ عموماً محبت کی کہانیاں ہی دیکھنے میں آئی ہیں۔ ڈرامہ دراصل حقیقت کا ہی عکس ہے۔ ڈرامے میں مشکلات اور آسانیاں آتی ہیں جنھیں ہم افسانوی حقائق پکارتے ہیں۔ ان آسانیوں کے دنوں میں شاید ہی کوئی ڈرامہ ایسا ہو جب مری کی سیر و تفریح کا ذکر نہ ہو۔ بچے ابو کو اکساتے ہیں، بیوی خاوند کو قائل کرتی ہے، اور اساتذہ طلباء کو تسمے باندھنے کا کہتے ہیں۔ ابو مصروفیات میں سے وقت نکال کر بچوں کے مطالبے پہ، اساتذہ تعلیم و تربیت کی بہتری کی غرض سے بچوں کے دماغوں میں مثبت کا بیج بونے، اور خاوند بیوی سے مشاورت کے بعد نئی زندگی کے آغاز کو مری کے پہاڑوں کے نام کرنے کی خواہش لیے ایک دو دن کوہستان کا رخ کرتے ہیں۔

ڈرامہ البتہ یہ نہیں دکھاتا کہ کیسے والد کی بھاری جیب کاٹ لی جاتی ہے، ڈرامہ یہ بھی نہیں دکھاتا کہ کیسے طلباء کی مری سے جڑی خواہشات ‘ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے’ کی نذ  ہو جاتی ہیں، ڈرامہ یہ بھی نہیں دکھاتا کہ کیسے دعویدار مرد کے دعوے اس کی بندی کے سامنے مشکلات کی وجہ سے اس کا منہ چڑانے لگتے  ہیں۔

پاکستانی ڈراموں میں مری کے ذکر کی مثال اس لیے دی کہ ہمارے ڈرامے شہرت کی بلندیوں پہ ہیں۔ کیسے ہیں اور بہتری کی کتنی گنجائش ہے سے ہٹ کر یہ ہمارا ہی عکس ہے اور اس عکس میں مری کے ذکر کا بار بار ہونا بتا رہا ہے کہ مری کو لوگ دوسرا گھر مان چکے ہیں۔ شہر کے مسائل سب وہیں چھوڑ کر صرف محظوظ ہونے پہنچتے ہیں۔ انھیں بہت سی باتیں کرنا ہوتی ہیں جو کسی درخت کے نیچے، برفانی چھت تلے، پہاڑ کی چوٹی، یا پتوں کے سائے میں انھیں کہنا اچھا لگتا ہے۔

نوجوانان مری میں غل غپاڑہ کرتے ہیں۔ نیو ائیر نائیٹ ہو یا عید کی پچھلی شب پٹاخوں سے یہ اظہار کرتے ہیں کہ یہاں کوئی ماتم نہیں چل رہا۔ شور کرتے ہیں کیونکہ بیچارے شہروں میں مصروفیات کے بوجھ تلے رہتے ہیں اور آج انھیں موقع میسر آجاتا ہے کہ تمام مشکلات، سٹریس، بوجھ، پریشانیوں، الم، اور دکھوں کو پہاڑوں کے بیچ شور کی مدد سے اڑا دیں گے۔ اس حق سے کوئی کیسے انھیں محروم کر سکتا ہے؟ جوانوں کو کیوں ہم سنجیدگی کے کفن میں لپیٹنے کے قائل ہیں؟ ان کے ہی دن ہیں تو وہ خوب جینا بھی جانتے ہیں۔ یہ زندہ دلی کا ثبوت ہے۔ یہ اس باس کے منہ پہ طمانچہ ہے جو گدھے کی طرح کام لے کر چارہ بھی نہیں ڈالتا۔ یہ بچوں کی خوشیاں ہی والدین کو بتاتی ہیں کہ پریشانیوں سے تو خدا بہت بڑا ہے۔ پتی پتنیاں پکار اٹھتے ہیں کہ آخر مری ہی تو جینے کی وجہ ہے اور وہ خوشی خوشی لطف کے بعد واپسی کی راہ پکڑ لیتے ہیں۔ مری کو متوسط طبقے کی انٹرٹینمنٹ ہی سمجھ لیں تو سمجھنے میں آسانی ہو جائے کہ یہ مری پہ ان کا غصہ اس لیے ہے کیونکہ ان کی اس سے محبت لازوال اور ابدی ہے۔

یہ پریشانیاں اس لیے ہیں کیونکہ سرمایہ دار اتنا ہی مری والوں کا دشمن ہے جتنا مری کی سیر کرنے والوں کا ہو سکتا ہے۔ مری مقامیوں کا رہا ہی نہیں ہے۔ یہ مشترکہ مقام طے پا گیا ہے۔ مقامی بیچارے تو الٹا مشکلات برداشت کر رہے ہیں۔

مری کے مقامیوں کو خوب رگڑا لگا ہے۔ آج نہیں کئی سالوں سے دیکھنے میں آرہا ہے لیکن مری کیا ہے؟ مری یہ ہے کہ اس کے بسنے والے ‘انصار’ کے پاس اگر دو چادریں تھیں تو ایک چادر ‘مہاجر’ بھائی کو دے دی۔ اگر دو چپاتیاں تھیں تو ایک مہاجر بچے کی بھوک مٹانے کا سبب بن گئی۔ دو کمرے تھے تو ایک کمرہ سردی سے ٹھٹھرتے خاندان کو فراہم کر دیا گیا۔ انھوں نے دیگوں پہ دیگیں چڑھا دیں، مدارس مساجد کو کھول دیا، مراکز کو ریسکیو سینٹرز بنا دیا، آغوش نے سب کو اپنی آغوش میں لے لیا اور بتایا کہ یہ صرف یتامیٰ کا ادارہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو ہر مشکل سے دوچار کا یار ہے۔ دختران اسلام اکیڈمی نے دخترانِ وطن کو باعزت پناہ دے ڈالی۔ مدرسے کے قاری صاحب طلباء کے ہمراہ اشیائے خوردونوش لیے پہنچ گئے۔ الخدمت نے خدمت کی نئی مثال قائم کر ڈالی۔ مری ڈیویلپمنٹ فورم نے تو حدیں پار کر دیں! کیا یہ ڈھکا چھپا ہے کہ کیسے قیادت اور کارکنان صف اول میں نظر آئے؟ کیا ریلیف سروسز نہیں پہنچائی گئیں؟ کیا لوکلز نے برف میں دھنسے بچوں کو اوزار کی مدد سے نئی زندگیاں نہیں دیں؟ کیا مری والے بیگانے ہو گئے تھے؟ نہیں۔ سب ٹھیک ٹھیک کام پہ لگے رہے۔ جت گئے۔ ڈیویلپمنٹ فورم کے بانی ممبران خود شانہ بشانہ موجود رہے۔ جو کچھ ہو سکتا تھا کر گزرے۔ فوت شدگان کا غم مری والوں کا غم رہا اور رہے گا اور ان کی قربانی رنگ لائے گی۔

مری کے مقامی کون ہیں؟ مری کے مقامی وہ ہیں کہ جب پوچھا گیا کہ من انصاری الی اللہ؟ تو یہ یک زبان پکار اٹھے۔ نحن انصار اللّٰہ! نحن انصار اللہ! یہ ہے مری اور یہ ہیں مری کے لوگ! اگر کمزوری ہے تو قومی کمزوری ہے۔

مری یہ ہے کہ اس کے نمائندہ فورم نے قسم کھا لی ہے کہ مافیاز کو اب لگام ڈالیں گے۔ مافیاز کی آنکھ میں آنکھ ہو گی۔ ان کے گریبان ہوں گے اور فورم کے نمائندوں کا ہاتھ ہو گا۔ ہاتھ ہے اللّٰہ کا بندہ مومن کا ہاتھ! غالب و کار آفریں کارکشا کارساز! فورم نے اعلان کر دیا ہے کہ جسے لوٹا گیا وہ بتائیں ان کا حساب آج ہی ہو گا۔ یہ ہے مری!

ایک سٹیٹس دیکھا جس میں کہنے والے نے کہا کہ مری کے لوگوں کو جب آئینہ دکھایا جاتا ہے تو وہ غصہ کیوں ہوجاتے ہیں؟ ارے بابا غصہ اس لیے آتا ہے کہ مافیاز، سرمایہ دار اور باڑوں کے اس طرف بسنے والے ہمارے بھی اتنے ہی مخالف ہیں جتنے آپ کے یا ہمارے بھی اتنے ہی دوست ہیں جتنے آپ کے ہو سکتے ہیں۔ مری تو مشترکہ جگہ طے پا گئی ہے۔ آؤ مل کے مری کو کالے انگریزوں سے آزادی دلائیں۔ ہم مقامی تو خود روزگار کی تلاش میں ہیں۔ ارے ہماری تو اپنی گھر کی چھتوں سے پانی ٹپک رہا ہے۔ ہم تو خود آزادی کے متوالے ہیں۔ اس ظلم کے باوجود ہم نکلے تو قرآن کریم کی آیات تازہ ہو گئیں۔ انفروا خفافا و ثقالا وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللّٰہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہلکے ہو یا بوجھل ہو نکلو اور نفس، جان اور مال لگا دو! اور پھر وجاھدوا فی اللہ حق جہادہ۔ اتنی کوشش کرو جتنا کوشش کرنے کا تمھارا حق ہے۔ یہ ہے مری! آپ خوب گالیاں دو تب بھی ہماری مساجد گھر مدارس مراکز سب حاضر! یہ ہے مری۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply