طلباء میں خودکشی کے رجحان کی نفسیات ۔۔۔۔ ہمایوں احتشام

طلباء کسی بھی قوم اور ملک کا مستقبل ہوتے ہیں۔ جن پر ملک و قوم کی فلاح و ترقی کا بوجھ اٹھانے اور اسے آگے لے جانے کی بھاری ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔حالیہ عرصے میں خودکشیوں کا بڑھتا رجحان دیکھا گیا ہے اور صرف میری سابقہ یونیورسٹی این ایف سی انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان میں پچھلے چھ ماہ میں خودکشی کرنے کے تین واقعات رونما ہوئے، جن میں دو طالب علم تو خوش قسمتی سے اجل کے بے رحم پنجے سے بچ گئے مگر ایک طالب علم خود ہی زندگی کو داغ مفارقت دے گیا۔ متوفی طالب علم کا نام مزمل احمد اور وہ آرکیٹیکچر ڈئزائن ڈیپارٹمنٹ کا طالب علم تھا۔ ایک باشعور، سلجھا ہوا، پڑھنے والا اور ذہین طالب علم، جو پڑھائی میں ہمیشہ اچھے گریڈز لیتا تھا۔۔آخر کیا وجوہات ہیں کہ اس نے موت کی کڑوی گولی نگلنے کا دلیرانہ فیصلہ کرلیا، اور اس فعل کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

کسی بھی تبدیلی کے رونما ہونے کے دو طرح کے اسباب ہوتے ہیں۔

1۔ داخلی اسباب

2۔ خارجی اسباب

داخلی اسباب تبدیلی کی بنیاد ہوتے ہیں جبکہ خارجی اسباب تبدیلی کی شرط۔

ہمارے بنکنگ نظام تعلیم میں طلبا ذاتی ناقدری کا شکار ہوتے ہیں۔ یعنی وہ اس سطح پر ہوتے ہیں جہاں وہ انسان نہیں بلکہ اشیا کا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔ وہ بالکل ایک برتن کی مانند ہوتے ہیں، جس میں استاد اپنی مرضی سے کوئی چیز بھر دیتا ہے، اور ان برتنوں کا کام ان علمی باتوں کو رٹنا اور یاد کرنا ہوتا ہے۔ یہ عمل درحقیقت تخلیقی صلاحیت کو پامال کردیتا ہے  اور طالب علم سمجھتا ہے کہ اسے کچھ نہیں پتا، وہ جاہل، سست، کام چور اور گنوار ہے۔ اس کا استاد ہر فن مولا ہے اور اس کی بات پتھر پر لکیر ہے۔

اس طریقہ کار سے جہاں تخلیقیت ناپید ہوتی ہے ،وہیں   طالب علم انسان سے نچلی سطح پر چلا جاتا ہے، یعنی ادھر آ کر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ نوآبادیاتی باشندے اور طالب علم کا کردار ایک سا ہے، جبکہ استاد نوآبادکار کا متبادل بن گیا ہے۔ بنکنگ نظام تعلیم مکمل انسانوں کی بجائے اشیا یعنی آبجیکٹس تخلیق دیتا ہے۔

اب دوسری بات درحقیقت تعلیم سیکھنے سکھانے کا عمل ہے۔ استاد جہاں شاگرد کو بہت کچھ سکھاتا ہے ادھر ہی طالبعلم بھی استاد کے علم میں اضافہ کرتا ہے۔ یعنی دونوں میں بارٹر کا نظام ہے، اور اختلاف کرنے کی حجت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ مگر بنکنگ نظام تعلیم میں فاعل اور مفعول کا تعلق ہوتا ہے۔ شاگرد ایک لفظ نہیں بولے گا اور استاد سب کچھ پڑھاتا رہے گا۔

اب اس فاعل اور مفعول کی تفریق نے ہمارے معاشروں میں مضبوط بنیادیں کھود لی ہیں ۔ احترام کے نام پر استاد سے اختلاف کو بھی ہمارے معاشرے نے حرام قرار دے دیا، جس سے اساتذہ کے سروں میں اپنی برتری کا خناس جڑیں پکڑتا گیا  اور نتیجہ یہ نکلا کہ یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں میں جو طالب علم سب سے زیادہ سوال پوچھتا ہے اسے بے ادب، بے شرم اور بے حیا جیسے القابات سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ ایسے میں یونیورسٹیوں میں جہاں سارا پاس فیل کا اختیار استاد کے پاس ہوتا ہے، وہ اس طالب علم سے ذاتی بنیادوں پر بدلہ لینے کی ٹھان لیتا ہے  اور انجام کار میں استاد برسرعام جماعت میں اس طالب علم کو دھمکی دے دیتا ہے کہ وہ پاس نہیں ہوسکتا۔

اب طالب علم کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے  اور وہ ہوتا ہے خوشامد کا۔ وہ شدید خوشامد کرتا ہے، خوشامد پسند استاد کی اس منت سماجت سے نفسیاتی تسکین ہوتی ہے، کیونکہ استاد ہمارے معاشرے کا وہ شخص ہوتا ہے جس کو عوام الناس میں کوئی خاص رعب جمانے کا  ذریعہ میسر نہیں ہوتا، کیونکہ وہ انتظامی طور پر بے اختیار ہے۔ اسی بناء پر کچھ نفسیاتی تسکین کے بعد اس طالب علم کو “معاف” کردیتے ہیں، اور بعض رقم کا مطالبہ کرتے ہیں، اور بعض جنسی تسکین کے حصول کا موقع  چاہتے ہیں۔ بعض اس قدر کینہ پرور ہوتے ہیں کہ وہ طالب علم کے مستقبل کی پروا کیے بغیر اسے فیل کردیتے ہیں اور طالب علم نفسیاتی عوارض کا شکار ہوجاتا ہے۔ ڈیپریشن، انگزائیٹی دوسرے امراض جڑیں پکڑنے لگتے ہیں۔ پھر معاشرے کے دوسرے لوگوں کی توقعات کا دشنام طرازی کا ڈر اور خوف اس بات پر منتج ہوتا ہے کہ طالب علم خودکشی کرلیتا ہے۔

اس کے علاوہ اہم ترین اور بنیادی وجہ معاشی ناپختگی ہوتی ہے۔ جب استاد طالب علم سے امتحان میں پاس کرنے کے لیے پیسوں کا تقاضا کرے تو طالب علم سخت محنت کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ وہ امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرلے گا۔ مگر آخر میں پرچے میں فیل ہونا اسے  ذہنی کوفت کا شکار کردیتا ہے۔ وہ استاد سے زیادہ معاشی کمتری کو کوستا ہے، اب وہ استاد (نوآبادکار) کو بے نقاب کرنے کی بجائے اپنے ماں باپ پر برستا ہے، اور ان کو اپنی ناکامی کی بنیاد گردانتا ہے۔

یہی رویہ نوآبادیاتی باشندہ اس وقت کرتا ہے  جب   وہ اپنے حقیقی دشمن یعنی گورے حاکم کو چھوڑ کر اپنے بھائی پر چاقوؤں  سے وار کرتا ہے۔ گھریلو جھگڑے، ناچاقی اور ماں باپ کا سخت رویہ اسے مزید شکستہ دل اور بوجھل بنا   دیتا  ہے،  قنوطیت آڑے آتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ “پیدا ہونے کا مقصد دراصل مرنا ہی تو ہے۔” پس وہ اس آلام بھری زندگی سے راضی خوشی جان چھڑانے  میں  عافیت سمجھتا ہے۔ داخلی محرک کسی بھی طالب علم کی خودکشی میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر یہ داخلی نفسیات ماں باپ کی ترتیب کردہ ہوتی ہیں۔ طالب علم سے یہ توقع  کی جاتی ہے کہ وہ اعلی ترین نمبر لے گا، بہترین گریڈز اور جی پی اے حاصل کرے گا۔ ڈاکٹر بنے گا، انجینئر بنے گا، پائلٹ بنے گا وغیرہ وغیرہ۔ مگر ماں باپ اس طالب علم کی  ذہانت کی سمت کا تعین نہیں کرتے، اور بنکنگ تعلیم کے نظام میں گھسا دیتے ہیں۔

ان  کی تو قعات کو سامنے رکھتے ہوئے طالب علم شدید محنت کرتا ہے، اس کے باوجود کہ   طالب علم  اس بارے میں بالکل بھی دلچسپی محسوس نہیں کرتا۔ آخر کار وہ رٹے کی بنیاد پر کامیاب تو ہو جاتا ہے مگر ماں یا باپ کے دوست یا سہیلی کا بچہ جب اس بچے سے زیادہ نمبر لے جاتا ہے تو اس پر کڑی تنقید کی جاتی ہے، بچپن سے مسابقت ذہن میں کوٹ کوٹ کے بھر دی جاتی ہے۔

جب وہ بڑا ہوتا ہے تو مسابقانہ رویے کو سامنے رکھتے ہوئے دوسرے طلبا سے مقابلے کرتا ہے، بعض اوقات دوسروں کو اس کے مقابلے کی بابت معلوم بھی نہیں ہوتا۔ آخر میں جب اس مسابقت زدہ طالب علم کے کم نمبر آتے ہیں تو یہ اسے اپنی ہتک سمجھتا ہے اور اگلے امتحان کی پھر تیاری کرتا ہے مگر پھر سے کم نمبر آتے ہیں۔ یہ مسابقت طالب علم کو  ذہنی امراض کی جانب لے جاتی ہے، کیونکہ اس مسابقت کو بڑھاوا دینے میں ماں باپ کے طعنوں  کا اہم ترین کردار ہوتا ہے۔ آخر میں جب مسلسل ناکامی نصیب ہوتی ہے تو طنز و تشنع سے بچنے کے لیے وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

یہ چند اہم وجوہات ہیں جن کی بناء پر طلبا و طالبات عام طور پر خودکشی کرتے ہیں۔ خودکشیوں سے بچا اسی صورت جاسکتا ہے کہ وہ طبقاتی نظام تعلیم، مسابقتی ثقافت، نام نہاد استاد شاگرد احترام اور بنکنگ نظام تعلیم کا خاتمہ کیا جائے۔ نجی سکولوں میں مسابقانہ طرز عمل عام دیکھا جاسکتا ہے۔ پہلے ان نجی سکولوں کا خاتمہ کرکے ریاستی سطح پر ایک سا پیٹرن اور میڈیم لگایا جائے اور طلبا کو آزادی دی جائے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی زندگی میں ترقی کرنے اور فیلڈ منتخب کرنے کا فیصلہ کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں سمجھتا ہوں کہ سرمایہ داری یہ تمام اقدامات کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے گی، کیونکہ سرمایہ داروں کا مفاد مسابقت کے ساتھ، بنکنگ نظام تعلیم سے بنائے گئے اشیا نما انسانوں کے ساتھ جڑا ہے، پس یہ تمام اقدامات سوشلزم کے ساتھ ہی مشروط ہیں  اور انسانیت کی فلاح کی آخری منزل سوشلزم ہی ہے!

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply