کیمسٹری کی تنظیم (46)۔۔وہاراامباکر

مستقل مزاجی، ضد اور جوش۔ ان کو ملا کر جو خاصیت بنتی ہے، اس کو ماہرینِ نفسیات grit کہتے ہیں۔ اس کی تعریف ایسے کہ جاتی ہے کہ “طویل مدتی مقاصد حاصل کرنے کے لئے لمبے عرصے تک دلچسپی برقرار رکھنا اور محنت کرتے رہنا”۔ اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ شادی میں کامیابی ہو یا عسکری آپریشن میں۔ یہ خاصیت کامیابی کے لئے سب سے ضروری ہے۔ اور ایک سائنسدان تو اس کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتا۔

ایسے ہی ایک ضدی سائنسدان روسی کیمسٹ ڈمیٹری مینڈالیو تھے جو اپنے غصے اور ضد کی وجہ سے مشہور تھے۔ وزارتِ تعلیم کے سرکاری اہلکار کو ناراض کرنے پر ان کا تبادلہ 1855 میں کریمیا کے ہائی سکول میں استاد کے طور پر کر دیا گیا۔ جب وہ وہاں پہنچے تو جنگ کی وجہ سے سکول بند ہو چکا تھا۔ واپس آئے اور اپنے ہائی سکول کے ٹیچنگ کیرئیر کو خیرباد کہا اور پرائیویٹ ڈوزانٹ کے طور پر سینٹ پیٹرزبرگ یونیورسٹی میں ملازمت شروع کر دی۔ یہ لیکچر دینے کا کام تھا جس کا معاوضہ ٹِپ کی صورت میں ملتا تھا۔ بعد میں وہ اس یونیورسٹی کے پروفیسر بنے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر مینڈالیو کی والدہ اتنی پرعزم نہ ہوتیں تو وہ کیمسٹ بننا تو کجا، پڑھنے لکھنے سے بھی رہ جاتے۔ سکول میں درمیانہ طالبعلم تھے جو سائنسی تجربات میں تیز تھے۔ سائبیریا کے غریب خاندان سے تھے اور چودہ سے سترہ کے درمیان بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ والدہ کو ان کی ذہانت پر اعتماد تھا۔ جب وہ پندرہ سال کے تھے تو والد وفات پا گئے۔ وہ انہیں اپنے ساتھ لے کر نکل گئیں کہ کہیں داخلہ مل جائے۔ انہیں چودہ سو میل کا سفر کرنا پڑا جس کا بڑا حصہ گھوڑا گاڑیوں پر لفٹ لے کر کیا گیا تھا۔ وہ انہیں ایک ادارے میں سکالرشپ پر داخل کروانے میں کامیاب ہو گئیں جہاں کے ڈائریکٹر ان کے مرحوم والد کے دوست تھے۔ ان کی والدہ کا جلد ہی انتقال ہو گیا۔ اس سے 37 سال بعد مینڈالیو نے جب سائنسی کتاب لکھی تو اس کو والدہ سے منسوب کیا اور ان کی بسترِ مرگ پر کی گئی نصیحت کا ذکر کیا، “سراب سے باز رہنا۔ کام پر توجہ رکھنا، الفاظ پر نہیں۔ صبروتحمل سے سچ کی تلاش کرنا”۔ مینڈالیو نے اپنی زندگی میں انہی پر عمل کیا۔

مینڈالیو خوش قسمت تھے کہ وہیں پیدا ہوئے تھے۔ اور ہمیں تمام بڑی کامیابیوں اور دریافتوں میں یہ فیکٹر نظر آتا ہے۔ انسانی بصیرت اور موافق حالات، فکری کامیابی کے لئے دونوں ضروری ہیں۔ آئن سٹائن خوش قسمت تھے کہ ان سے پہلے الیکٹرومیگنٹزم کی جدید تھیوری بنائی جا چکی تھی جس سے نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ روشنی کی رفتار کانسٹنٹ ہے۔ اور یہ خیال ان کی سپیشل تھیوری آف ریلیٹیویٹی کی بنیاد بنا۔ سٹیو جابز خوش قسمت تھے کہ انہوں نے جب کیرئیر کا آغاز کیا تو ٹیکنالوجی اس جگہ تک پہنچ چکی تھی کہ مفید پرسنل کمپیوٹر بنایا جا سکتا تھا۔ اس کے برعکس غلط وقت پر خیال کی ایک مثال ایک موجد لوتھر سمجیان کی ہے۔ ان کے پاس کئی پیٹنٹ تھے اور ان کا بہترین آئیڈیا اپنے وقت سے دس سال قبل آیا تھا۔ یہ اے ٹی ایم مشین کا آئیڈیا تھا جس کو انہوں نے بینکوگراف کہا تھا۔ انہوں نے نیویارک شہر کے بینکوں کو یہ بیچنے کی کوشش کی تھی۔ ایک بینک نے چند ایک مشینیں نصب بھی کروائی تھیں لیکن لوگوں کو بھروسہ نہیں تھا کہ مشین پر اعتبار کیا جا سکتا ہے اور یہ چل نہیں پایا۔ دس سال بعد جب وقت بدل چکا تھا اور معاشرہ تیار تھا تو یہ ایجاد عام ہو گئی لیکن ڈیزائن کسی اور کا استعمال ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سمیجان کے برعکس وقت مینڈالیو کے ساتھ تھا۔ ان کے وقت میں کیمسٹری آگے بڑھنے کو تیار تھی۔ “عناصر کو فیملی میں منظم کیا جا سکتا ہے”۔ اس بات سے سائنسدان لاعلم نہیں تھے۔ مثلاً، فلورین، کلورین اور برومین کو ہیلوجین کے طور پر سویڈش کیمسٹ برزیلیس نے 1842 میں کلایسفائی کیا تھا۔ یہ ایک خاندان کی لگتی تھیں۔ بہت جلد اشیا گلا دینے والی سوڈیم سے ملکر بے ضرر سا کرسٹل بنا دیتی تھیں۔ سوڈیم، لیتھیم اور پوٹاشیم میں مماثلت دیکھنا بھی مشکل نہیں تھا۔ چمکدار، نرم اور بہت جلد ری ایکٹ کرنے والی الکلی دھاتیں تھیں۔

بائیولوجیکل جانداروں کی کلاسیفیکیشن کارل لینئیس کی بنائی سکیم کے مطابق کی جاتی تھی۔ کیمسٹ نے بھی ویسا سسٹم بنانے کی کوشش کی تھی لیکن یہ گروپ واضح نہیں تھے اور نہ ہی یہ معلوم ہوتا تھا کہ آخر کیوں ان کا آپس میں تعلق ہے۔ یا ایٹم کی آخر کیا خاصیت ہے جس وجہ سے ایسا ہے۔ یہ مسائل نے یورپ بھر سے مفکرین کی توجہ لیتے رہے۔ اس دروازے کو کئی ذہین لوگ کھٹکھٹاتے رہے لیکن مینڈالیو تھے جو اسے توڑ کر اندر داخل ہو گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر عناصر کو منظم کرنے کا آئیڈیا نیا نہیں تھا اور اس پر بہت سے لوگ سوچ بچار کر رہے تھے تو وہ شخص جس نے یہ معمہ حل کر لیا، شاباش تو لے گا لیکن ایسا کیا ہے کہ ہم اسے کیمسٹری کے عظیم ترین جینیس میں شمار کرتے ہیں؟ (جو کہ مینڈالیو واقعی تھے)۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ کام کرنے کی وجہ سے ہم انہیں بوائل، ڈالٹن اور لاووسیے جیسی شخصیات کی صف میں شامل کرتے ہیں؟

اس کی وجہ یہ کہ مینڈالیو نے جو پیریوڈک ٹیبل ڈویلپ کیا تھا، وہ کوئی پرندوں کی فیلڈ گائیڈ طرز کا کام نہیں تھا۔ یہ کیمسٹری کے شعبے میں نیوٹن کے قوانین تھے۔ یا کم از کم اتنا بڑا کارنامہ تھا، جس کی کیمسٹری میں کوئی توقع کر سکتا تھا۔ یہ صرف ایک ٹیبل نہیں تھا جو عناصر کو فیملی میں تقسیم کرتا تھا۔ یہ ایک محاوراتی زائچہ تھا جس کی مدد سے کیمسٹ کسی عنصر کو اس نقشے پر دیکھ کر سمجھ سکتے تھے اور اس کی خاصیت کا اندازہ لگا سکتے تھے۔ ان عناصر کا بھی جو دریافت بھی نہیں ہوئے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply