• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • وفاقی حکومت کا پانچواں مسلسل بجٹ اور عوامی توقعات کا ڈھیر

وفاقی حکومت کا پانچواں مسلسل بجٹ اور عوامی توقعات کا ڈھیر

وفاقی حکومت کا پانچواں مسلسل بجٹ اور عوامی توقعات کا ڈھیر
طاہر یاسین طاہر
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالی سال 2017/18کا 53 کھرب دس ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا ہے،یکم جولائی سے 2010 کا ایڈہاک الاونس ضم کر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں 10 فی صد اضافے،محنت کش کی کم از کم اجرت ایک ہزار روپے اضافے کے ساتھ 14 ہزار سے بڑھا کر 15 ہزار روپے کرنے کی تجویز دی ہے۔اس بجٹ میں ڈیلی الاونس کی شرح 60 فی صد بڑھانے اور اردلی الاونس 12 ہزار سے بڑھا کر 14 ہزار روپے کرنے کی بھی تجویز ہے جبکہ سیمنٹ،سریا،در آمدی کپڑے،سگریٹ،پان،چھالیہ،چاکلیٹ،کاسمیٹکس،الیکٹرانکس،دوائیں،خشک دودھ،غیر ملکی مشروبات مہنگی کرنے کی تجویز ہے ۔ جبکہ چھوٹی گاڑیاں،سمارٹ فون،فون کالز،مرغی،شتر مرغ،ٹیکسٹائل،یوریا،ڈی اے پی،زرعی مشینری،بے بی ڈائپر،ہائبرڈ کار پر سے در آمدی ڈیوٹی ختم کی جائے گی۔85ہزار روپے سے زائد تنخواہ لینے والوں کو ایڈوانس ٹیکس دینا ہو گا،جبکہ 1 تا 5 گریڈ کے سرکاری ملازمین ہاوس رینٹ کی کٹوتی سے مستثنیٰ ہوں گے۔
دریں اثنا جہاں عام محنت کش کی تنخواہ میں صرف ایک ہزار روپے اضافے کی سفارش کی گئی ہے وہاں صد مملکے ممنون حسین کی تنخواہ میں 6 لاکھ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ میںٹیکس ریونیو کا کل ہدف 43 کھرب روپے سے زائد رکھا گیا ہے جس میں سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) 40 کھرب روپے سے زائد اکٹھا کرے گا۔آئندہ مالی سال کے دوران ترقیاتی اخراجات پر ایک ہزار ایک ارب روپے سے زائد خرچ کیے جائیں گے۔ جبکہ ملک کا دفاعی بجٹ 9 کھرب 20 ارب روپے کا ہوگا۔مالی سال 2017/18کے لیے بجٹ کے اہداف میں سے سرمایہ کاری کا جی ڈی پی سے تناسب 17 فیصد ہوگا۔افراط زر کی شرح 6 فیصد سے کم ہوگی۔بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 4.1 فیصد ہوگا۔ٹیکس میں اضافہ جی ڈی پی کے 13.7 فیصد کے تناسب سے ہوگا۔ایف بی آر کے محاصل میں 14 فیصد جبکہ وفاقی اخراجات میں 11 فیصد تک اضافہ ہوگا۔وفاقی حکومت کی غیر محصولاتی وصولیاں 7 فیصد بڑھائیں گے۔موجودہ اخراجات کو قابو میں رکھا جائے گا۔زرمبادلہ کے ذخائر کو 4 ماہ کی درآمدات کے برابر رکھا جائے گا۔نیٹ پبلک ڈیٹ کو جی ڈی پی کی شرح کے 60 فیصد تک محدود رکھا جائے گا۔
جس طرح مثل مشہور ہے کہ گونگے کی زبان گونگے کی ماں ہی سمجھتی ہے بالکل اسی طرح معاشیات کی دقیق زبان صرف ماہرین معاشیات ہی سمجھ سکتے ہیں۔سرکاری ملازمین کی بجٹ میں کل دلچسپی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے تک محدود ہوتی ہے۔جبکہ عام آدمی آٹا،دالیں،چاول اور کچن کی دیگر ضروریات کی قیمتوں کے حوالے سے زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر طبقات آتے ہیں ،یعنی کاروباری،اس طبقے میں بھی درجہ بندی کے اعتبار سے بجٹ میں دلچسپی ہوتی ہے۔یعنی ملک کی تقریباً نوے فی صد سے زائد آبادی بجٹ کے لفظی گورکھ دھندے کو قطعی سمجھ ہی نہیں پاتی۔اگر کھادیں اور موبائل کالز سستی ہوئی ہیں تو دوسری طرف سیمنٹ،سریا اور دوائیں مہنگی کر دی گئی ہیں۔
عام مزدور کی کم از کم اجرت جس طرح 15 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ کیا پندرہ یا بیس ہزار میں ،چار افراد کے کنبے کا ماہانہ کچن بجٹ بن سکتا ہے؟کیا جان بچانے والی ادویہ مہنگی کر کے سرمایہ کار طبقات کو نوازا نہیں گیا؟گذشتہ روز وہ کسان جو اپنا حق مانگنے آئے تھے ان پرڈی چوک میں حکومتی ایما پر وفاقی پولیس نے جس طرح تشدد کیا یہ عوام دشمن بجٹ کے اشاریوں میں سے ایک ہے۔ کسان اس ظالمانہ بجٹ پر احتجاج کرنے اور اپنا حق مانگنے کے لیے مظاہرہ کر رہے تھے۔تشدد اس بات کی علامت ہے کہ حکومت کے پاس کسانوں کو مطمن کرنے کو کچھ نہ تھا۔یہ چھوٹے کسان تھے نہ کہ بڑے جاگیرار۔
ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ ماہرین معاشیات مہینوں اس بجٹ پہ بحث کرتے رہیں گے، جبکہ حکومتی اراکین اس بجٹ کو عوام دوست اور اپوزیشن والے ظالمانہ بجٹ کہتے رہیں گے۔یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تو ایک مخصوص تعداد ہے جو مختلف محکموں میں کام کر رہی ہے۔ وہ افراد جو نجی سیکٹرز میں کام کر رہے ہیں ،یا وہ افراد جو بے روزگار ہیں ان کے لیے حکومت نے کیا اقدامات تجویز کیے ہیں؟کیا صحت اور تعلیم کے لیے مختص بجٹ سے ہم صحت و تعلیم کا وہ ہدف حاصل کر پائیں گے، جس کی ہمارا سماج کم از کم توقع کر رہا ہے؟ایک بار پھر ہم یہ ہی کہیں گے کہ بجٹ پہ بحث اور اس معاشی لفظ گری پہ ماہرین ضرور بحث کریں گے، مگر غیر جانبدار طبقات کا اب تک کا جو ردعمل سامنے آیا ہے اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ یہ بجٹ بھی عوام دشمن اور مہنگائی کے نئے طوفان کا سبب ہو گا ۔بجٹ میں امیر اور کاروباری طبقات کے لیے تو گنجائش ہو گی مگر عام آدمی کے لیے اس بجٹ میں کوئی خوشخبری نہیں ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply