پپو سیانا ہو گیا ۔۔۔ سیٹھ وسیم طارق

ابو جی مجھے نیا سوٹ لے کر دیں عید کیلئے۔ پپو نے باپ کی قمیض کا پلو پکڑتے ہوئے کہا۔ پپو گھر  میں اپنے بہن بھائیوں میں سے تیسرے نمبر پہ تھا۔ پڑهنے والا بچہ تھا اس لیے سب گھروالے اس کی ہر بات کو پورا کرتے اور اسے  کم سے کم کام کا کہا کرتے۔ اس نے گریجویشن مکمل  کی  تو اس کی عزت میں اور اضافہ ہوگیا۔  مزید پڑھائی کیلئے پپو  نے  یونیورسٹی داخلہ لیا۔ ہفتے بعد بنا مانگے اسے  دو  تین ہزار جیب خرچ مل جاتا تھا۔ یوں  پپو  پڑھائی کے ساتھ ساتھ عیاشی بھی خوب کرتا۔

پپو ہر عید پر  دو سوٹ ضرور سلواتا۔ پچھلی عید پہ گھر  والوں کا ہاتھ ذرا تنگ تھا پھر  بھی  پپو حسب عادت دو سوٹ سلوانے پہ بضد رہا۔ باپ  نے پپو کو مخاطب کرتے ہوئے جتایا بھی  کہ پپو  بیٹا  اس دفعہ ایک ہی سوٹ کافی ہے جو تم نے سلوا لیا ہے۔ اب دوسرا سوٹ بڑی عید پہ سلوا لینا ۔ بولو ٹھیک ہے ناں؟ پپو ماننے والوں میں سے تھوڑی ہی تھا۔ بگڑی اولاد کی طرح صاف انکار کردیا اور بولا ابو جی مجھے سوٹ  ہر صورت سلوانا ہے۔  عید کے دوسرے روز بھی تو کچھ پہننا ہے ناں؟ لاڈلا تھا آخرکار لاکھ جتن کرنے کے باوجود باپ کو پپو کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور نیا سوٹ سلوا کے دے دیا۔

عید گزرنے کے بعد خدا کی مہربانی سے پپو کو پڑھائی کے ساتھ ایک اچھی نوکری بھی  مل گئی۔ نوکری کا ملنا تھا کہ گھر والوں نے اس پہ اپنی مالی مہربانیاں  ترک کردیں۔ اب وہ دن کو نوکری کرتا اور رات کو پڑھائی۔ شروعات میں  اس نے کسی حد تک  عیاشی جاری رکھی تاہم   مہینے کے آخر میں جیب خالی ہو جاتی تھی۔ اب آہستہ آہستہ اس کو پیسے کا بھید بھاو معلوم ہونے لگا۔  مٹن بیف  کا  شوقین  پپو اب دال روٹی پہ اکتفا کرنے لگا۔

اب کی بار عید آئی تو والد محترم نے پپو سے پوچھا کہ بیٹا سوٹ نہیں لینا۔ لاؤ سوٹ میں درزی کو دے آؤں؟ اور ہاں ایک عدد نئے جوتے بھی خرید لینا پہلے والے بھی  تو گھس گئے ہیں ناں؟ پپو کو  اپنی تنخواہ والے دن کا انتظار تھا۔ یکم  آئی  تو   پپو بار بار اپنی تنخواہ گن رہا تھا اور ساتھ ان سب  چیزوں کا حساب کر رہا تھا جو اس نے خریدنی تھیں۔ ہر بار گنتی  اور حساب کے بعد اس کا چہرہ اتر سا جاتا۔ آخر کار اس نے اترے ہوئے چہرے کے ساتھ بازار کا رخ کیا اور فقط   ایک سوٹ اور ایک جوڑی جوتے   خریدلایا   اور والد کو دے دیا کہ ابا جی یہ آپ سلوا لیں میرے پاس پہلے سے ہی بہت سوٹ ہیں،   میں وہی پہن لوں گا۔

والد صاحب پہلے  چونکے اور پھر پپو  سے  مخاطب ہوئے: “لگتا ہے میرا پپو سیانا ہوگیا ہے۔ عیاشی صرف باپ  کے   پیسوں پہ ہی کرنی تھی۔ اپنی کمائی خرچ کرنے کی باری آئی تو درزی کو چھوڑ کر دھوبی کی دکان کا رخ کرنے کا سوچ لیا۔ بہت  اچھے ۔

پپو بولا: ہاں جی ابا جی۔ محنت  کر کے کھانا واقعی بہت مشکل ہے۔  ویسے بھی سیانوں کا کہنا ہے کہ عیاشی صرف باپ کے پیسوں پہ کی جاتی ہے، اپنے پیسوں سے تو بس ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

والد صاجب  خوشی  سے بولے:    بیٹا   یہ سوٹ تم ہی سلوا لو، میں انہی کپڑوں پہ عید کر لوں گا۔ ویسے بھی مجھے کس نے پرانے سوٹ  کا طعنہ دینا وے؟   مجھے تو  بس  اس بات کی بے حد  خوشی ہے کہ میرا پپو اب سیانا ہو گیا ہے۔

Facebook Comments

سیٹھ وسیم طارق
ھڈ حرام ، ویلا مصروف، خودغرض و خوددار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply