رہبر یا راہزن۔۔۔۔سید فرہا دحسین شاہ

وہ بیس کے پیٹے میں ہے،اور حال ہی میں یونیورسٹی سے گریجویٹ ہوا ہے۔۔۔۔ایک لاش کے سہارے ایک لسانی تنظیم کی بنیاد رکھتا ہے،نچلے متوسط طبقے سے ہے،کوئی سیاسی تنظیمی مالیاتی یا مذہبی پس منظر نہیں رکھتا۔ایک خاص طبقے کے لیے مسیحا بن کے آتا ہے۔دنوں میں ملکی سیاسی افق پے چھا جاتا ہے۔ملکی ترقی پسند اور غیر ملکی اخباری نمائندے اور ان کے پلیٹ فارم اس کا ترجمان بننے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔اس کا تعلق سرحد پار سے جوڑا جاتا ہے۔اس کا تعلق بیرون ملک اشرافیہ سے جوڑا جاتا ہے، وہ انکار نہیں کرتا وہ اقرار بھی گھما پھرا کر  کرتا ہے۔اس کی ایک آواز ہے اس کے ماننے والے اکٹھے  ہو جاتے ہیں لڑنے مرنے پہ  تل جاتے ہیں۔وہ مسیحا جو ہے ان کا، امید کی کرن،اسے ہیرو بنایا جاتا ہے مظلوم دکھایا جاتا ہے۔وہ مزاحمت کی نشانی ہے۔سامراجیت کو کھلا چیلنج۔۔۔وہ بیباک ہے، نڈر ہے، کھل کر  بولتا ہے شیر کی طرح دھاڑتا ہے۔۔۔

وہ کون ہے؟۔۔۔۔۔

آپ سمجھیں گے کہ وہ منظور پشتون ہے۔۔

آپ کو سمجھنے کا حق ہے مگر نہیں۔۔۔۔۔رکیے!

وہ منظور نہیں ۔۔۔بلکہ الطاف بھائی ہے!

اس قدر حیرت انگیز مماثلت کیا محض اتفاق ہے یا کوئی حادثہ؟یا شاید کوئی  کھیل؟

مملکت خداداد  پاکستان ہمیشہ سے مختلف قسم کے  مصائب مشکلات اور ہمسایوں اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی ریشہ دوانیوں کا نہ صرف شکار رہی ہے بلکہ کئی مواقعوں پہ  ان کی طفیلی اور باجگزار بھی رہی جس کی وجہ سے ہمیں ریاست کی طرف سے وقتاً فوقتا نئے بیانیے سننے کو ملے ، لیکن وائے قسمت کہ عتاب کا شکار صرف قبائلی ہوئے گویا ہاتھیوں کی جنگ کے بیچ کچلی جانے والی گھاس ، مسلسل آپریشنز ، بے گھر ہونا ، جگہ جگہ ناکے ان نسلوں پر ہونے والی تضحیک آمیز ذلت ، یہ سب مل کر زیرزمین ایک آتش فشاں تو تخلیق دے ہی چکی تھی لاوا بہنے کے وقت کا اندازہ لگانا مشکل تھا ،ایسے میں اچانک منظور پشتین منظر عام پر آتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر دوسرے پختون کی آنکھوں کا تارا بن جاتا ہے ، جہاں ایک طرف ملک کے دیگر حصوں میں بیٹھے غیر پشتونوں کو منظور پر تنقید و تشکیک کرنے پر دشنام طرازی کی برسات کردی گئی وہیں کسی اپنے ہی ہم قوم پشتون کی تنقید یا احتیاط برتنے کے مشوروں پر اسے کبھی پنجابیوں کا غلام اور کبھی بوٹ پالشیا کہا گیا ، کوئی بھی منظور کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں یہ بالکل وہی ردعمل ہے جو اب سے چالیس سال پہلے اس جہاد نما فساد سے دور رہنے اور پھر طالبان سےفاصلہ رکھنے کے مشوروں پر آیا تھا! ثابت ہوا پختون کل بھی جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہوا آج بھی ہورہا ہے کل یہ جذبات مذہب کے نام پر تھے آج قوم پرستی اور استحصال کے نام پر ۔

دوسری طرف ریاست کا کردار ایک بار پھر شکوک و شبہات کے دائرے میں نظر آتا ہے پہلے وہی پرانا حربہ کہ منظور غدار ہے افغانستان اور انڈیا کا ایجنٹ ہے پاک فوج کے خلاف ہے امن کے خلاف ہے ، لوگ اس منفی پروپیگنڈے کی بدولت مزید متوجہ ہوئے منظور کی طرف سے تحریک میں مزید تیزی آگئی، مطالبات بڑھتے گئے اور زور و شور سے بیان کئے جانے لگے پھر جب ایک بڑا مجمع منظور کے گرد جمع ہوگیا تو اچانک ریاست کہتی ہے منظور ونڈر بوائے ہے ، اپنا بچہ ہے ، مطالبات جائز ہیں مانے جائیں گے

میرا شک اور بڑھتا جاتا ہے پرانے تجربات کی روشنی میں، میں یہ سوچنے پر حق بجانب ہوں کہ کیا منظور ریاست ہی کا تو نیا بیانیہ نہیں ہے ؟۔۔کافی مضبوط جواز ہیں میرے پاس یہ سوچنے واسطے ،

ایک تو یہ کہ امریکہ نے کافی فاصلے بڑھالئے ہیں پاکستان سے اس کے بقول وہ اب مزید بے وقوف بننے کو تیار نہیں ، سعودی عرب بھی اسی راہ پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو لبرل بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہے یعنی ان دونوں سے امداد نہ ملنے کی صورت میں اب ان مدارس اور مذہبی بیانئے کو مزید آگے چلانا نہ ممکن ہے نہ سود مند ، نئی پشتون جنریشن اپنے پچھلوں کو مذہب کے نام پر استعمال کرکے ان کا خون بیچنے والے امریکی سعودی افغانی اور پاکستانی سوداگروں کا طریقہ واردات سمجھ چکی ہے وہ بھی اب مزید اس مذہبی جھانسے میں آنے کو تیار نہیں تھی ، تو کیا پھرانہیں ایسے ہی چھوڑ دیا جاتا کہ یہ خود سے اپنے لئے راستہ اور راہبر چن لیں یہ تو خسارے کا سودا ہوتا، تو پھر ؟

Advertisements
julia rana solicitors

پھر اس صورت میں ایک ہی طریقہ کار سود مند نظر آتا ہے کہ اس سے پہلے کہ راہبر چن لیں ۔۔راہبر دے دو قوم پرستی کی بنیاد پر لیڈر دے دو۔ اب قوم پرستی اور استحصال کے خاتمے کی جدوجہد کا یہ سبق منظور اچھے سے پڑھا رہا، پختونوں کو اور اسی بنیاد پر اپنے پیچھے لگا چکا اس گروہ کو ، سی پیک کے خلاف بیان بازی بھی چائنا سے شاید وہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے جو ہر خودکش حملے کے بعد امریکہ سے حاصل کی جاتی تھی ، اس کے علاوہ بچا کھچا بے روزگار طالبان بھی حلیہ بدل کر اس ہجوم میں آسانی سے شامل ہوکر اپنی نئی شناخت پالے گا اور ایک نیا سفر نئے بیانئے کے ساتھ جاری و ساری رہے گا اور سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”رہبر یا راہزن۔۔۔۔سید فرہا دحسین شاہ

Leave a Reply