گولی نہیں بولی

ابراہیم جمال بٹ
بولی اور گولی دو ایسے متضاد حروف ہیں جن کے معنی میں اتنا فرق ہے جتنا آسمان اور زمین میں۔ بولی منہ اور زبان سے خارج ہو تی ہے اور گولی بندوق کی نالی سے نکل جاتی ہے۔ بولی سے ایک دوسرے کی سنی جا سکتی ہے اور گولی سے ایک دوسرے کا خون بہایا جا تا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہی کچھ سمجھ میں آتا ہے کہ انسانی فطرت بولی کی متقاضی ہے اور گولی اکثر اوقات میں انسانی فطرت کے خلاف ہی دکھائی دیتی ہے۔
بہر حال یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ انسان کی شخصیت پر بولی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس قدر انسانی بولی ہو گی اسی قدر اس کی شخصیت نمایاں ہو جاتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جو بات انسان کے دل میں ہوتی ہے وہ بولی کی صورت میں اس کی زبان سے کبھی نہ کبھی نکل ہی جاتی ہے۔ اس کے برعکس گولی ہے، جو عام حالات میں انسانی فطرت سے میل نہیں کھاتی۔ کیوں کہ اس گولی سے اس پُرامن زمین پر شروفساد جنم لے لیتا ہے۔ زمین جنگ وجدل میں تبدیل ہو جاتی ہے، لوگوں کو جنہیں اپنی زندگی جینے کا حق ہے کا خون پانی کی طرح بہتا ہے۔ ظالم اور مظلوم کی فہرست تیار ہو جاتی ہے اور اس طرح ظالم ظلم کرتا رہتا ہے اور مظلوم ظلم کی روک تھام کے لیے جوابی کارروائی کا فریضہ انجام دیتا ہے۔
مطلب یہ دونوں الفاظ ”بولی اور گولی“ ایسے ہیں جن کا استعمال وقت پر کرنا ایک اچھی علامت ہے ۔ لیکن اگر بے وقت کی راگنی راگ لی جائے، جب بے وقت ایسی بولی کا استعمال کیا جائے جس کی ضرورت ہی نہ ہو تو اُس وقت یہ بولی گالی کے برابر تصور کی جاتی ہے۔ اسی طرح جب گولی اس وقت چلتی ہے جب اس کا وقت نہ ہو تو یہی گولی ایک ایسی فضا تیار کرتی ہے کہ ہر طرف خون ہی خون بہتا ہے، ہر جانب آہ وبکا کا عالم چھا جاتا ہے، اور اس طرح اس گولی کا بے وقت کا استعمال تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔
ایسے لوگ اور ایسی قوم جو وقت پر ان دونوں کا استعمال کرنا نہیں جانتی، ایسی قوم جسے بولی اور گولی میں تمیز کرنا نہ آتا ہو، ایسی قوم جو بے وقت ان دونوں ”بولی اور گولی“ کا استعمال کرتی ہے۔ حقیقت میں اس زمین پربدترین ، اناڑی، اور اپنے اوپر خود ہی ظلم کرنے والی قوم تصور کی جاتی ہے۔
یہی صورت حال برابر اس وقت مقبوضہ کشمیر میں چل رہی ہے، بولی کے وقت گولی کی بات کی جا رہی ہے اور بے وقت گولی کا اس طرح استعمال کیا جا رہا ہے کہ زمین کے چپہ چپہ پرآہ وبکا کا عالم چھایا ہوا ہے۔ پُر امن مظاہروں کو تتر بتر کرنے کے لیے احتجاجی مظاہروں پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں، انہیں موت کی آغوش میں پہنچا کر خود کو بہادر وں اور مہذبوں کی لسٹ میں شمار کیا جا رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بے وقت کا کام ہے، اور بے وقت کا کام ہمیشہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں لوگوں پر گولیاں چلانے کے بجائے ان کی سنی جاتی، اس کے برعکس ان پر گولیاں چلائی جارہی ہیں، ایک لاکھ سے زائد انسانوں کوحالیہ تین دہائیوں میں ابدی نیند سلا دیا گیا۔
اس پر واویلا اور روک کے بجائے فخراً یہ مضحکہ خیز باتیں کی جا رہی ہیں کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں صرف پانچ فیصد لوگ ایسے ہیں جو یہاں کےامن کو بدمنی میں تبدیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں، صرف 200نوجوان ایسے ہیں جو عملی طور پر عسکریت سے وابستہ ہیں ، جن کے مقابلے کے لیے آٹھ لاکھ بھارتی فوجی قابض ہو کر تعینات ہیں،جتلا کر کہا جارہا ہے کہ حالات جلد ہی بہتر ہو جائیں گے۔ ایسی سوچ جب عدلیہ اور حکمران طبقہ کی بن جائے تو خدا ہی حافظ۔ گستاخی معاف !جموں وکشمیر کی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی صاحبہ کا ایسے وقت پر اطمینان کی سانس لینا بے وقوفی ہے، جس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔

Facebook Comments

ابراہیم جمال بٹ
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک درد بھری پکار۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply