انسانیت کا متلاشی انسان

کل تفریح کی غرض سے سوچا کہ کوئی فلم دیکھی جائے اور آخر کارنظر انتخاب “برادر ہوڈ آف وار “(brotherhood of war ) پر آن رکی۔۔۔فلم “سیونگ آف پرائیویٹ ریان” کے ہم پلہ ہے۔۔۔ ایک بھائی کا پیار ایک بیٹے کی عقیدت اور عاشق کا عشق جب اپنے امتحان سے گزرتا ہے اور اپنے پیاروں کو بچاتے بچاتے اپنے ملک کے لوگوں کا محافظ بن جاتا ہے۔۔۔ جنگ جہاں انسانیت بلکتی ہے وہاں سے انسانیت کا درس کم لیتے ہیں۔۔۔ فلم ہی میں ڈائیلاگ ہے کہ” انسانوں کی جان کی قیمت اتنی بھی سستی نہیں کہ صرف ایک نظریہ پر وار دی جائے اس سب کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے جینے کےلئے”۔ فلم نے گہرا اثر چھوڑا، رات کو سونے سے پہلے دن 11:40 کا الارم لگا کر سویا کہ صبح تک دماغ فریش ہوگا، آج برنچ کے بعد لیب اس امید سے آیا کہ اپنا کام مکمل کرکے چھوڑوں گا، اپنے کام کیلئے ابھی outline بنا رہا تھا ک باہر بجلی کڑکی ، موسم بہت سہانا تھا،ایسے میں سب سے پہلے اپنی شریک حیات کی یاد آئی۔۔۔ پھر کل رات کی فلم کے مناظر، محبت، بھائی کا پیار ،ماں کی ممتا ،بیٹے کی عقیدت اور وہ ڈائیلاگ کہ” زندگی اتنی بے وقعت نہیں کہ ایک نظریہ پر ہی ختم کر دی جائے جینے کے لئے دنیا میں اور بھی بہت کچھ ہے”۔
پھر ایک پوسٹ سامنے آئی کہ ایک مسلمان نوجوان ہاتھ میں پستول لئے بیٹھا ہے اور اوپر لکھا ہے کہ ابو الحنظلہ الخراسانی نے مرتدین پر بارودی جیکٹ پھوڑ ڈالی، ذہن کے پردے پر چند دن پہلے کے واقعات چھا گئے ، ایران کے کسی جنرل کا بیان نہیں کوئی طوفان اٹھا ہو جیسے، ان پڑھ سے ان پڑھ اور پڑھے لکھے سے پڑھا لکھا بندہ پاکستان کے شعیوں کو ہمیشہ کی طرح ایرانی ایجنٹ کہہ اور لکھ رہا تھا۔۔۔۔ اب آپ بتائیں وہ کون ہیں جو ملک کے ہر کونے میں پھٹ کر کتنی ماؤں کی جھولی، کتنی بیٹیوں کے سر سے باپ کا سایہ، کتنی بہنوں کی آس اور کتنی بیویوں کا سہاگ اجاڑ چکے ہیں۔۔۔ میں مزید ایک سوال ان کے سامنے رکھتا ہوں جن کو حلب کے شعلے صاف دکھتے ہیں اور ہزارہ شکار پور سیہون ان کی آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں، کتنے حلب کے نوحہ خوان ہیں جنہوں نے یمن پر نوحہ لکھا ہو یا کتنے عزاداران یمن ہیں جنہوں نے شام میں زہریلی گیس کا شکار بنتے بچے دیکھ کر چند اشک ان کے نام کئے ہوں۔۔۔ سب لوگوں کے اپنے اپنے چاند ہیں، ہمیں کسی چیز کو اچھا یا برا کہنے یا لکھنے کےلئے نہ اپنے دماغ سے سوچنا پڑتا ہے نہ اپنے کان سے سننااور نہ ہی اپنی آنکھ سے دیکھنا۔۔۔ ہمارے اچھے برے کے فیصلوں کے ترازو اپنے نہیں ،اس کے لئے ہمیں اوروں کا میزان چاہیئے، کہیں پر عرب کی آل سعود میزان الباکستان ہے تو کہیں پر آغا جی کا ملک فارس کا ترازو۔
افسوس کہ ہمارے نام نہاد دانشور جو ترک حسیناؤں کے بلاوز اور شارٹس میں چھپی اسلام کی محبت اور اسلام آباد کی دوشیزاؤں کی کار کے ڈیش بورڈ میں چھپی قابلِ اعتراض چیزیں تک دیکھ لیتے ہیں،ان کی قلم صرف آپس میں نفرت کو ہوا دینے کے کام ہی آئی، آج تک ہم کم و بیش 80 ہزار کی تعداد میں اپنے بھائیوں کو دفنا چکے ہیں جن میں اکثر کی لاش چند گوشت کے ٹکڑے تھے۔۔۔ لیکن آج بھی کسی کی آنکھ میں جھانک لیں، اس میں ان کے لئے کتنا درد ہے، آپ بولیں گے تو آپ کو چپ کرانے کے لئے تاویلوں کے پہاڑسامنے لا کر رکھ دیں گے ،یہود و نصاری کی سازشوں سے ڈرا دیں گے.،ہمارا پہیہ ہی الٹا چل رہا ہے، یہاں قاتل قتل کی سنچری کا جشن منا کر انٹرویو دینے چلا آتا ہے کہ اب میں آگیا ہوں، فکر کی کوئی بات نہیں اور ہمارے فوجی سپاہیوں کے سر سے فٹ بال کھیلنے والے ہمارے ادیب بن کر انٹرویو دیتے ہیں۔ کتنا دکھ ہوتا ہے جب میں کوریا میں ایک گھر میں دیکھتا ہوں کہ باپ عیسائی بیٹا ایتھیسٹ اور بیٹی بدھسٹ ایک چھت کے نیچے ایک ساتھ رہتے ہیں برتن بھی الگ نہیں سب ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ کسی نے کسی کا سر نہیں کاٹا، کوئی سازش نہیں، ان کے لئے صرف اپنا فرض اور ملک پہلے ہیں۔۔۔۔
ایسے معاشرے میں انسانیت بھی پنپتی ہے اور ترقی بھی ہوتی ہے،ایسے ہی معاشرے ہیں جہاں چند دن کا احتجاج ملک کے صدر کو چھوٹی سی کرپشن پر گھر تو کیا جیل بھیج سکتاہے، ہمیں بھی اپنا رویہ بدلنا ہوگا، دحشت، خوف ہراس کی راہ کو ہموار کرنے والی اپنی من گھڑت تاویلوں کو دور پھینکنا ہوگا، ظلم جس طرح بھی، جس پر بھی ہو کھل کر مذمت کرنا ہوگی۔۔۔ورنہ منہاج جیسے سانحوں کے مجرم وزیر قانون ہی رہیں گے، ملک کی تقدیر کا فیصلہ عوام کرتی ہے، ہمیں بھی سب نفرتیں بھلا کر ایک دوسرے کو سمجھنا ہو گا، نفرت کے نشتروں سے ایک دوسرے کو لہولہان کر کے دیکھ لیا، اب محبت کا مرہم آزما کر دیکھ لیں،ایک دوسرے کو چین سے جینے کا حق دے کر دیکھ لیں، شاید یہی کوئی نسخہ کیمیا ہو۔۔۔۔ ہم بھی اپنی جنگ کو باہمی بھائی چارے سے ہی جیت سکتے ہیں!

Facebook Comments

توفیق احمد
تعارف ضروری نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply