امام مسجد ایک کمیونٹی لیڈر۔۔۔۔گوہراقبال خٹک

کسی بھی معاشرے کی ترقی ،امن وامان و خوشحالی کی ذمہ داری اس معاشرے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد پر عائد ہوتی ہے۔۔حضور ﷺ کے  ارشاد کا مفہو م ہے کہ تم میں سے ہر ایک ذمہ دارہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھاجائے گا۔لیکن معاشرے میں بعض افراد اس طرح بھی ہوتے ہے جن پر یہ ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے وہ معاشرے کی ترقی ،خوشحالی امن وامان میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ جن پر معاشرہ اُمید رکھتا  ہے  اور ان پر بھروسہ رکھتا  ہے  ،ہرمشکل اس کے سامنے پیش کرتے ہیں او رعوام کی مشکلات حل کرنے  کی کوشش کرتاہے ۔ان میں سے ایک امام مسجد ہے،امام مسجد عوام  کا ایک رہنما اور لیڈر ہے ۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے امام کا لفظ سنتے ہی ہمارے  ذہن فوراً ایک شکل آجاتی ہے۔کہ ایک دینی ادارے سے فارغ ،معاشرے کی ضروریات سے باخبر ہو، کوئی سمجھ نہ رکھنے والا، ان کا کام صرف مسجد تک محدود رہتا ہے ،اور لوگوں کو امامت  کرانا یہ ایک صورت ہمارے ذہن میں آجاتی ہے ۔ حالا نکہ ایسا با لکل نہیں ہماری یہ سوچ غلط ہے ، عربی لغت کے اعتبار سے امام رہنما اور لیڈر کو کہتے ہے۔ جو عوام کی رہنمائی کریں خواہ دنیا کے اعتبار سے ہو یاآخرت کے اعتبار سے ۔

امامت تو ایک منصب ہے، ایک ذمہ  داری ہے، ایک توانا آواز ہے، اسلامی معاشرہ امام کے کردار کے گرد گھومتا نظر آتا ہے، دراصل امام اس علاقے کے اس اسلامی کمیونٹی سینٹر کا ذمہ  دار ہے جسے اسلامی اصطلاح میں مسجد کہا جاتا ہے، یہ مسجد صرف عبادت کے لیے مخصوص جگہ کا نام نہیں بلکہ مسجد میں عبادات کے ساتھ ساتھ معاشرتی معاملات طے کرنے کا نظام، تعلیم اور صحت کے پروگرام، امدادی فلاحی سرگرمیوں پر مشتمل سہولیات اور عام معاشرتی مسائل کے حل کے لیے انتظامات موجود ہوں، لوگوں کی ایک دوسرے کی خبر گیری کرنا، ایک دوسرے کے معاملات سے آگاہی حاصل کرنا، مریضوں کی عیادت کرنا، محلے اور علاقے سے برائیوں کو ختم کرنے اور نیکیوں کو فروغ دینے کے لیے کردار ادا کرنا، سب اس مسجد سے وابستہ افراد اور امام مسجد کی اجتماعی ذمہ  داری ہے(ایچ آر مصور)۔

امام  نے پورے معاشرے   کی اصلاح کی بات کرتا ہے ، اور اس امت کو بھی فضیلت اس وجہ سے حاصل ہے کہ یہ نیکی کی طرف دعوت اور برائی سے روکے گی ۔یہ سارا نظام ممبر کے  ذریعہ چلتاہے  مام مسجد کو چاہیے کہ وہ  معاشرے کی برائی کوسمجھے اور ازالے کا طریقہ بھی جانتا ہو ۔اس نے یہ سارا نظام اپنے ممبر ومحراب سے قابو کیا ہوتا ہے ۔امام کے پاس ممبر و محراب ابلاغ وتربیت کابہترین ذریعہ ہے ۔اگر محلے میں لڑائی ہوجاتی ہے تو امام اسکا شریعت کے مطابق  حل  نکالتاہے تو یہاں امام ایک یولیس  افسرکی شکل اختیار کرکے معاشرے سے بدامنی جھگڑا و فساد ختم کرنا چاہتا ہے ۔کسی کا جنازہ پڑھنا ہوتاہے تو مسجد امام ہی نماز جنازہ پڑھتا ہے او ر کسی نومولود بچے کے کا ن میں آذان دینا ہو ۔تو مسجد کے امام کو ہی  یاد کیا جاتا ہے ۔  کسی کا نکاح پڑھوانا ہو تو امام کوکے محتاج ہوتے ہے ۔غرض وہ کونسا مقام ہے جس میں امام ہماری رہنمائی نہیں کرتا۔گویا   کہ وہ ہمارے معاشرے و کمیونٹی کالیڈر ہے ۔جو کام ایک لیڈر معاشرے کے لئے کرتاہے وہی کام ہمارے امام صاحب کرتے ہیں ۔اس بات کو تو ہم مانتے ہے کہ امام ہمارا کمیونٹی لیڈر ہے ۔کیا لیڈر کے جو تقاضے ہوتے ہیں ۔ہم ان کو پورا کرتے ہیں کہ نہیں ۔ وہ ہمارے ہر کام میں ہمارے ساتھ ہوتاہے اور ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔کیاہم اس کا ساتھ دیتے ہیں کہ نہیں ۔ہرانسان اپنے نفس میں سوچے ۔ایک کمیونٹی لیڈر (امام مسجد) کے ساتھ کیاکیاکرناچاہتے  ہیں  او ر ہم کیاکرتے ہیں ۔لیکن آج بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ امام کے ساتھ  بہت زیادتی کرتے ہے ۔ہم ان کو عزت وبنیادی سہولیات بھی نہیں دیتے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس امام کے پیچھے ہم پانچ وقت نماز پڑھتے ہے۔ہرمشکل میں ہمارا ساتھ دیتا ہے اور ہماری رہنمائی کرتا ہے لیکن ہم اس کی  بنیادی ضروریات پورے کرنا  تو دور کی بات   عزت تک   نہیں دیتے ،ویسے تو اسراف ہم بہت کرتے ہیں پیسہ تو ہم پانی کی طرح بہاتے ہیں ۔
غیرضروری مقام پر تو جمع شدہ پیسہ ضائع کرتے ہیں ۔لیکن جب بات آتی  ہے امام کی تنخواہ کی ۔تو اپنی  جیبوں کو تالا لگاتے ہیں ۔کتنی افسوس کی بات ہے کہ جو شخص ہماری رہنمائی کرتا ہے ہم اس کے ساتھ کیاکرتے ہیں جس طرح ہم ایک لیڈرکا خیال کرتے ہیں اسی طرح امام بھی ہمارا کمیونٹی لیڈر ہے ہمیں بھی اس کی  جملہ ضروریات کا بھی خیال کرنا چاہیے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply