تنہائی کے سو سال(نوبل انعام یافتہ) ۔۔۔عظمی عارف

تنہائی کے سو سال(نوبل انعام یافتہ)
گیبریل گارسیا مارکیز

یہ بوئندا خاندان کی 100 سالہ عروج و زوال اور انسانی جبلتوں کے اظہار اور انکار کی ایک شاندارکہانی ہے – کہانی کا آغاز ایک چھوٹی سی بستی ماکوندو سے ہوتا ہے جس کی بنیاد جوزے آرکیدو بوئندا ،  ارسلا اگواران  (بیوی)اور اس کے کچھ وفادار ساتھی رکھتے ہیں – سوسالہ تاریخ میں کہیں جوانی کی سحر انگیزیاں ہیں تو کہیں زندگی تنہائی کے ہاتھوں بلکتی،تڑپتی، سسکتی ملے گی – مصنف بہت خوبصورتی سے تجسس اور تحریک کا عنصر آخری صفحے تک قائم رکھتا ہے جہاں ارلیانو بوئندا (خاندان کی آخری کڑی )خود کو سرخ دیمک زدہ گھرکے ایک پراسرار اندھیرے کمرے( ملکیا دیس کی ملکیت ) میں زندہ درگور کر دیتا ہے – اس ناول میں ناموں کی تکرار ملے گی جو قاری کو کئی مواقع پر گڑبڑا کر رکھ دیتی ہے مگر تجسس کے مارے قاری اس جادوئی افسانے کی بھول بھلیوں میں  کھو جاتا ہے

خاندان کا سربراہ ایک طاقتور اور مضبوط سحر زدہ شخصیت کا مالک ہوتا ہے – پوری بستی میں ان کا گھر اپنی مہمان نوازی اور پرسکون زندگی کی وجہ سے مشہور تھا – لوگ اس خاندان کو  احترام کی نظر سے دیکھتے  تھے – یہ ان دنوں کی بات ہے جب جوزے آرکیدوابھی جوان تھا اس کے اند تجسس کی ایسی لہر دوڑتی ہے جو سارے گھر کا نظام تہس نہس کر دیتی ہے اور جوزے آرکیدوکو اس کی خود ساختہ لیبارٹری تک محدود کر دیتی ہے جہاں وہ سارا دن اور رات اپنے عجیب وغریب تجربات میں مصروف رہتا ہے – اس موقعے پر ارسلا گھر کا انتظام سنبھالتی ہے اس کے نزدیک جوزے صرف وقت ضائع کر رہاتھا مگر جوزے ملکیا دیس سے متاثر ہوتا جو کہ پکھی واسوں کا سربراہ ہے ،ہمیشہ کسی نئی ایجاد کے ساتھ وادی میں وارد ہوتا ہے اور لوگوں کو حیران پریشان چھوڑ جاتا ہے-

جوزے کے دو لڑکے اور ایک لڑکی ہوتی ہے – سو سالہ زندگی میں انہی تین بچوں  اور لمحاتی جنسی تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والےحرامی بچوں  سے  کہانی  آگے چلتی ہے- اس خاندان کے مرد  باہر سے عورتیں لاتے رہے مگر جب بھی بوئندا خاندان کی کسی عورت کی شادی کا معاملہ اٹھتا یا پھر اس کا کوئی عاشق سامنے آتا تو یہ خاندان عجیب و غریب  نفسیاتی حرکتیں کرتا  – اس خاندان کا ہر فرد عام انسان سے زیادہ جنسی طور پر طاقتور اور متحرک تھا –

بوئندا خاندان کی عورتوں کی نفسیات عجیب و غریب اور پراسرار تھی-وہ خود مختار، اپنے فیصلوں میں آزاد اور گھریلو انتظام چلانےمیں طاق تھیں مگر دوسری طرف ان کی جنسی زندگی گھٹن کا شکار نظر آتی ہے   – امرانتا  (بیٹی) اور رابیکا (لےپالک بیٹی) دونوں عورتوں کا کردار ان کی موت تک بہت پراسرار رہا– جوانی میں قدم رکھتے ہی رابیکا کو پیٹرس کورٹس سے عشق ہوجاتا ہے جو کہ ان کی منگنی پر منتج ہوتا ہے مگر ہر دفعہ شادی کی تاریخ کسی نہ کسی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوتی جاتی ہے اسی دوران امرانتا حسد کے زیر اثر اپنی بہن کی زندگی میں زہر گھولتی رہتی ہے – عین اس موقعے پر جب دونوں کی شادی ہونے والی ہوتی ہے  جوزے کا بڑا بیٹا گھر واپس ہو جاتا ہے جو اپنی اوائل جوانی میں پکھی واسوں کے ساتھ گھر سے بھاگ گیا تھا – جوزے کا بڑا لڑکا دیو نما اور بے انتہا جنسی طاقت کا مالک تھا رابیکا اور جوزے کا بیٹا گھر سے  بھاگ کر شادی کر لیتے ہیں – اور امرانتا پیٹرس کورٹس کو اپنی محبت کی بانہوں میں بھر لیتی ہے مگر ۔۔۔۔۔

ایک شام جب رابیکا کا شوہر خرگوش کا شکار کر کے گھر واپس لوٹتا ہےتو رابیکا گولی مار کر اسے قتل کر دیتی ہے اور خود کو ساری زندگی اس گھر میں جو دونوں نے مل کر بنایا تھا قید کرلیتی ہے اور پھر کبھی کسی نے اسے باہر نہیں دیکھا – اپنی موت پر ہی اس کا جنازہ قبرستان لے کے جاتے وقت لوگوں نے دیکھا اس کا سر گنجا تھاجس پر ایک دو سنہرے بال تھے –

دوسری طرف امرانتا نے اپنے گھر کی باگ دوڑ میں اہم کردار ادا کیا مگر وہ ساری زندگی دل سے کنواری رہی اور چاہے جانے کی خواہش کے باوجود اپنے لیے آنے والے امیدواروں کو دھتکارتی رہی مگر پروانے اس کنواری شمع کے اردگرد منڈلاتے رہے  ، اس کی یاد میں ایڑیاں رگڑتے رہے آخر زندگی سے ہار گئے – اپنے عاشق پیٹراکورٹس  اور بھتیجے  سے جنسی تعلقات کے باوجود اس نے ساری زندگی اکیلے تنہائی کا عذاب جھیلتے ہوئے گزار دی –آخری عمر میں ایک اور امیدوار کرنل گرینلڈو مارکیزبھی آخری سانس تک امرانتا کی یادوں کی ہوک دل میں لیے عدم سدھار جاتا ہے -مگر کتنی نسلیں  اور تنہائی امرنتا کے ہاتھوں پروان چڑھیں –

تیسری نسل میں ایک اوردوشیزہ  شہزادی ریمیڈیس  کا کردار بہت دلچسپ ہے جو بے پناہ خوبصورت ، معصوم اور لاابالی طبیعت کی مالک ہے جس کی  ایک جھلک دیکھنے کے لیے بستی کے جوان موقع ڈھونڈتے تھے- اس کے پیچھے تین عاشق کتے کی موت مرتے ہیں مگر ریمیڈیس کو کسی کی موت سے صرف اتنا فرق پڑتا ہے ” دیکھا کتنا بے وقوف تھا”وہ بھی اپنی خود ساختہ تنہائی کا شکار ہر شے سے بے پرواننگی گھر میں پھرتی رہتی  اورایک دن باغ میں اپنے کنوارپنے کے ساتھ زندہ آسمانوں کی طرف  اٹھا لی جاتی ہے –

چوتھی نسل میں فرنینڈا کے بطن سے پیدا ہونے والی ریمیڈیس اپنی ماں کے غلط فیصلےکا شکار ہو کر ایک حرامی بچے کو جنم دے کر اپنے عاشق سمیت اس دنیا سے منہ موڑ لیتی ہے اور فرنینڈا اس حرامی بچے (ارلیانو)کو چاہنے کے باوجود قتل نہیں کر سکی اور اس کی پرورش کرتی ہے –جو اپنی خالہ کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتا ہے –

ملیکا دیس (پکھی واس )  دور دیسوں کی سیر کرتا ہے اور مستقبل کی پیشن گوئی کرنا ، لکھنا اور تجربے کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا – بوئندہ خاندان سے اس کا ایک گہرا اور ان مٹ  رشتہ رہتا ہے  یہاں تک کہ وہ بوئندہ خاندان کی دہلیز پر جان دیتا ہے اور اپنے پیچھے نا سمجھ میں آنے والی زبان میں دستاویزات چھوڑ جاتا ہے – پیلارترنیرا(طوائف) جس کے ساتھ  بوئندہ خاندان کا ہر مرد کسی نہ کسی بہانے ہمبستری کا مرتکب ہوتا ہے بوئندہ خاندان کی نسل میں ایک حرامی بچہ پیلارترنیرا کے بطن سے بھی پیدا ہوتا ہے جسے چاروناچار قبول کر لیا جاتا ہے کیونکہ بہرحال یہ بوئندہ خاندان کی شان کے خلاف تھا کا اس کی نسل کا کوئی فرد طوائف کے کوٹھے پر پرورش پائے – پیلارترنیراا نے نہ صرف بوئنداہ خاندان کے مردوں کو جوانی کی سرحد پر قدم رکھنے کے بعد جنسی تسکین پہنچائی بلکہ وہ اس خاندان کی عورتوں کے تاریک رازوں کی محافظ اور سہولت کار بھی تھی- اس کے ساتھ ساتھ وہ تاش کے پتوں کے ذریعے قسمت کا حال بھی بتاتی ہے – پیلارترنیرا بوئندہ نسل کے ماضی کے کھنڈرات کی ایک اہم یاد گار  اور عینی شاہد تھی  وہ جب مری تو نہ اس کا جنازہ اٹھا ، نہ ہی مقبرہ بنا  اور نہ ہی  کتبے پر اس کا نام درج کیا گیا – اس کے کوٹھے پر ہی ایک گڑھا کھود کر اسے دفنا دیا گیا –لیکن ماکوندو  کی غلام گردشوں میں صدیوں تک پیلارترنیرا کا نامبازگشت کی طرح گونجتا رہا –

بوئندہ خاندان کا ہر فرد خواہ مرد ہو یا عورت ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد تنہائی کا شکار ہو کر مرا – جوزے کے بیٹے اور پہلی نسل میں پیدا ہونے والے ارلیانو نے جنگ میں نام کمایا اور کرنل ارلیانو بوئندہ کے نام سے مشہور ہوا –  یہ جنگ لبرل اور کنزرویٹو تحریک کا نتیجہ تھی  جو 20 سالوں پر محیط ہوتی ہے جنگ کےان سالوں میں کتنی دفعہ موت کرنل کو چھو کر گزری مگر وہ زندہ رہا اس جنگ کے اختتام پر کرنل ارلیانوحکومتی سازش اور سیاسی چالبازیوں کا شکار ہو کر  اپنے وفادار ساتھی اور سترہ بیٹے گنوا دیتا ہے آخر میں شکست خوردہ کرنل ارلیانو تنہائی کا شکار اپنے کمرے تک محدود ہو جاتا ہے اور آخری سانس تک سنہری مچھلیاں بنا بناکر بیچتا رہتا ہے – اس کی موت پر اس کو حکومتی اور فوجی اعزاز کے ساتھ ماکوندو کے قبرستان میں دفنا دیا جاتا ہے –

اس دنیا میں زندگی کی نمو کے ساتھ ہی اندرونی اور بیرونی تبدیلیاں اک ان دیکھے انداز میں جاری ہو جاتی ہیں ان تبدیلیوں کو ایک سوچنے سمجھنے والا ذہن اچھی طرح دیکھ سکتا ہے – یہ تبدیلیاں اپنے ساتھ خوشی اور غم دونوں لے آتی ہیں – یہی کچھ ہم ماکوندو کے ساتھ بھی ہوتے دیکھتے ہیں – آغاز میں چند لوگوں کے باہم میل ملاپ سے ماکوندو پھلنا پھولنا شروع ہوتا ہے – وقت کے ساتھ ساتھ ماکوندو اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اصل ماکوندو کہیں کھو جاتا ہے – ترک ،عرب ، سپینی ، امریکی ، لاطینی لوگوں کی آمد سے ماکوندو کا اصلی رنگ وروپ ہی کہیں کھو جاتا ہے – ماکوندہ جہاں کبھی کسی پولیس اور فوج کی ضرورت نہیں پڑی تھی بیرونی سازشوں اور عمل دخل کی وجہ سے خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا ہے – ماکوندو میں وقت کے ساتھ ساتھ کئی تبدیلیاں آتی ہیں – بوئندہ خاندان کا سربراہ جس نے اپنی ساری زندگی اس خواب کو سچ کرنے میں گزار دی کہ ماکوندو کے باہر کوئی سمندر ہے اور اس سمندر کے پار بھی زندگی ہے وہ اپنی زندگی میں تو یہ سب نہ دیکھ سکا مگر اس کی نسلوں نے یہ خواب سچ ہوتے دیکھا جب ماکوندو میں گولہ بارود، اسلحہ، سینما ، ٹیلی گرام ، ٹیلی فون ، ٹرین حتٰی کہ ہوائی جہاز بھی  وارد ہو ئے – لیکن ہر نئی ایجاد کے ساتھ ماکوندو کی گلیاں ویران اور سنسان ہوتی گئی بستی والے کوچ کرتے گئے اور ماکوندو بوئندہ خاندان کی طرح اپنی تنہائی کی پرچھائی بن کر رہ گیا-

Advertisements
julia rana solicitors

کہتے ہیں زندگی کو زندہ رکھنے کے لیے موت کا سہارا لینا پڑتا ہے یہی کچھ ماکوندو کے ساتھ ہوا اس سوسالہ تنہائی میں زندگی کو سہارا دیتے دیتے ، ماکوند ہ کو خود موت اور تنہائی کو گلے لگانا پڑا ۔۔۔

Facebook Comments

عظمٰی عارف
ادب کی ایک طالبہ جو زمانے کو دیکھنے اور پرکھنے کے تمام مروج آئینوں سے بے زار ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply