سنچری مکالمہ کی

سنچری مکالمہ کی
احمد رضوان
ابتدئی سو دن اگر کسی نئی بننے والی حکومت کے ہوں تو اس سے زیادہ تعرض نہیں کیا جاتا کہ ابھی ہنی مون پیریڈ چل رہا ہے اور آنے والے دنوں میں کیاکیا گل کھلیں گے یا بن کھلے ہی مرجھا جائیں گے۔۔کا عوام زیادہ خیال نہیں کرتی ، اگر ازدواجی زندگی کے ہوں تو بھی نتارا ہو جاتا ہے فریقین میں سے کون فاتح ہے ؟کوں دھانسو اور کس کے آنسو ؟ یا تو بندہ کھانے کے لئے حلیم یا دکھتی کمر کے لئے حکیم ڈھونڈتا ہے۔کسی اخبار یا ادبی شمارے کے ہوں تو بھی پتہ چل جاتا ہے یاتو ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے اور مونس و مؤنث کا کام دیتا ہے یا فٹ پاتھ سے خریدی گئی ردی کی شکل میں پکوڑے پیک کرنے کے کام آتا ہے اور جو مرچ مصالحے مضامین میں ہوتے ہیں پکوڑے بیچنے والا لال مرچیں اضافی ڈال کر سب کو مرچیں لگا دیتا ہے اور اعلیٰ عدلیہ کی بھی پکوڑے سی سی کرا دیتے ہیں۔ حالانکہ قصور اس صفحے کا ہوتا ہے مرچوں کانہیں ۔قصہ کوتاہ پنجابی میں کہتے ہیں کُبے نوں لت وجی تے کُب نکل گیا۔مراد اس سے ہنچ بیک آف نوٹرے ڈیم نہیں نوٹری پبلک والا ہے ،سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے کہ کس طرح کعبے کو پاسبان مل گئے صنم خانے سے اور ایک خیر کی خبر برآمد ہوئی جسے دنیا اب مکالمہ کہتی ہے ۔
یوسفی صاحب آب گم کے مضمون حویلی میں بشارت کے سسر اور خوشدامن کے درمیان ہونے والے اس مکالمے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب لڑائی کی وجہ سے دکان بند ہوگئی اور سسر پر مقدمہ بن گیا تو ساس صاحبہ بھولپن سے پوچھتیں اب کیاہوئے گا؟ تو آگے سے سسر جواب دیتے دیکھتے ہیں ، دیکھ لیں گے ،دیکھا جائے گا ۔اسی طرح جب ہم قبلہ وکیل بابو سے پوچھتے(ایک دوست ہونے کے ناطے اوپر بیان کئے گئے رشتے سے نہیں) تو جواب ملتاجب اوکھلی میں سر دیا تو موصل سے کیا ڈر ؟ہرچہ بادا باد ۔
مکالمہ کا نام تجویز ہوا اور چند دوستوں نے اپنی پرخلوص خدمات کی پیشکش کی جن میں سے ایک راقم بھی تھا ،بس پھر لوگ ملتے گئے اور قافلہ بنتا گیا۔آج مکالمہ الحمد للہ ایک خاندان کی طرح ہے جس میں مختلف الخیال لوگ اپنی اپنی سوچ اور اپروچ کے ساتھ نہ صرف مکالمہ کرنے بلکہ ایک دوسرے کی بات برداشت کرنےکے کلچر کو پروان چڑھانے میں اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔مکالمہ کا اعزاز ہے کہ آنے والے ہر دن کے ساتھ لوگ شامل ہو رہے ہیں ۔مکالمہ نے نئے لکھنے والوں کو ایک امید کی کرن دکھائی ہے ، ان کی حوصلہ افزائی کی ہے ان کومنتشر خیالات کو مجتمع کرکے لکھنے کا ہنر بتایا ہے ۔ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں شئیر کی ہیں اور بڑے بڑے صدمات کو مل کر جھیلا ہے ۔ان ایشوز پر بات کی ہے جہاں پر پرجلتے ہیں اور قلم اور ہاتھ کانپتے ہیں ۔
مکالمہ کی ٹیم میں شامل تمام ممبران کو مبارکباد بالخصوص میر کاروان و مدر المہام ( مدر انگلش والی نہیں ہے) انعام رانا کو جس کے اخلاص پر اعتماد کرکے سب نے ایک عمدہ قوت فیصلہ کا مظاہرہ کیا ۔انعام رانا کو ایک اور مبارکباد بھی کہ ان کا مضمون مکالمہ کا پہلا مضمون قرار پایا ہے جسے ایک لاکھ سے زائد افراد نے سند قبولیت بخشا ہے ۔آنے والے چند دنوں کے اندر مکالمہ کانفرنس ہونے جا رہی ہے جو یقیناََ ایک اور بڑا قدم ہے درست سمت کی جانب اور دوررس نتائج کا حامل ان شاء اللہ۔
تمام احباب کی محبت اور سرپرستی کا شکریہ مکالمہ آج اس مقام پر کبھی نہ پہنچتا اگر آپ لوگوں کا پیار ، مان اور اعتماد ہمیں نصیب نہ ہوتا ۔امید ہے آپ سب ہماری اصلاح اپنی قیمتی آرا اور مشوروں سے اسی طرح کرتے رہیں گے اور مکالمہ کے تمام کار پردازان بھی آپ کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھیں گے
جہاں مکالمہ نے سو دن پورے کیے اور اپنے وجود کا احساس دلایا وہیں مکالمہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ ایک مضمون لکھے جانے پر کچھ روٹھی پھوپھیوں کے بارے بھی آگاہی ملی کہ جن کو اگر ویسے منانے نکلتے تو اک عمر بیت جاتی اور گوہر مقصود حاصل نہ ہوتا ،برسبیل تذکرہ پَھپھے کٹنی نامی ایک استعارہ یوں معلوم ہوتا ہے اصل میں پُھپھے کٹنی ٹائپ کی کسی پھوپھی کی وجہ معرض وجود میں آیا ہے ۔وللہ اعلم۔
مکالمہ کا یہ احسانِ عظیم بھی کسی طور چکایانہ جا سکے گا جس نے ہمیں ایڈیٹری کے عہدہ ءجلیلیہ سے سرفراز فرمایا اور اب جب ہم امور خانہ داری میں ہاتھ بٹاتے ہیں توایڈیٹر صاحب بات سنیں سننے کو ملتا ہے ، وہیں ہماری ایک مکالمہ کی ایک کولیگ جب ایڈیٹر بھیا کہہ کر بلاتی ہیں تو سچی پوچھئیے دل بہت خوش ہوتا ہے اور دل سے دعا نکلتی ہے اس معصوم سی بہن کے لئے اور مکالمہ کی ٹیم کے لئے ۔
سو دن یقیناََ ایک عددی نمبر ہے مگراس عرصہ میں آپ لوگوں سے ملنے والا پیار یقیناََ انمول و انمٹ ہے ۔ پہلی سنچری اسکور کرنے کے بعد امید ہے یہ کامیاب اننگز یوں ہی جاری و ساری رہے گی ان شاء اللہ۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply