ویلڈن ٹرمپ ویلڈن

ویلڈن ٹرمپ ویلڈن !!
ٹرمپ جو نظر آتا ہے نا وہ ہے نہیں اور جو نظر نہیں آتا وہ ٹرمپ ہے، یعنی ہاتھی کے دانتوں والا سین ہے ۔ یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ دبئی میں میرے ایک امریکی دوست جارج کے ہیں جو ایک درمیانہ سا بزنس مین ہے اور یہاں ایک درمیانے سائز کی مینجمنٹ کمپنی چلاتا ہے۔ جارج مزید کہتا ہے کہ ایک امریکی کی حیثیت سے میں جتنا ٹرمپ کو سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف بزنس کی دنیا کا ایک گھاگ کھلاڑی ہے بلکہ ایک بہروپیا اور گرگٹ نما انسان ہے۔ وہ گاہک کو لبھانے اور شیشے میں اتارنے کا ماہر ہے، جو بھی اس پر اندھا اعتماد کرے گا بے موت مارا جاۓ گا۔ ہم جانتے ہیں کہ خلیج کی موجودہ صورتِ حال امریکہ کی خواہش کے عین مطابق گومگوں کی کیفیت سے دوچار ہے۔
عراق اور لیبیا سے جو کچھ حاصل کرنا تھا کیا جا چکا ۔البتہ شام اور یمن میں محاذ خوب گرم ہیں، سعودی اتحادی حلقوں میں یہ امر بھی انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ جن علاقوں سے داعش پسپا ہوتی ہے وہاں یا تو کردوں کا قبضہ ہوجاتا ہے اور یا پھر شیعہ ملیشیا وہاں ہاتھ صاف کر جاتی ہے۔ جبکہ داعش کے خلاف 54 ممالک کا اتحاد بھی طبلِ جنگ بجاتا ہوا کہیں نہ کہیں میدان میں موجود ہے جس پر روزانہ لاکھوں ڈالرز کے اخراجات اٹھ رہے ہیں ،مگر داعش کا جِن ہے کہ قابو میں نہیں آ رہا۔ ایک طرف شامی فوج اور داعش آپس میں گتھم گھتا ہیں۔ کہیں داعش اور کرد آمنے سامنے ہیں، جبکہ وہیں پر شیعہ ملیشیا اور سنی اتحاد کی جنگ الگ چل ہی ہے اور اوپر سے امریکہ شامی فوج اور داعش دونوں پر برابر فضائی حملے کر رہا ہے۔ ترکی کردوں کو الگ نشانہ بناۓ ہوۓ ہے۔ خطے میں امریکہ اور روس کی پراکسی وار بھی حسبِ روایت جاری و ساری ہے۔
الغرض یہ ایک بے سرو پا اور عجیب و غریب جنگ کا منظر پیش کرتی ہے، جس میں دشمن دوست کی نا کوئی حد ہے اور نہ پہچان۔ دوسری جانب ایران اور سعودی عرب کی صدیوں پرانی چپقلش بھی آگ کو دو آتشہ کر رہی ہے۔ ایک دوسرے کو کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک بیان میں کہا ہے کہ “امریکہ اور سعودی عرب، شام و عراق میں داعش بنا کر اور یمن میں گھس کر سنگین غلطیوں کے مرتکب ہوۓ ہیں جس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا ہو گا، جب تک ہم سعودی عرب کو اس کے انجام تک نہ پہنچا دیں ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے”
اب ایسی دلچسپ صورتِ حال سے اگر ٹرمپ فائدہ نہ اٹھا پاۓ تو یقیناً ایک بے وقوف لیڈر کہلاۓ گا اور امریکی اسٹیبلشمنٹ اسے دوبارہ کبھی الیکشن جیتنے کا موقع فراہم نہیں کرے گی، لہذٰا ٹرمپ نے اپنی کاروباری بصیرت کو بروۓ کار لاتے ہوۓ پھر وہی چال چلی جو امریکہ صدیوں سے اس خطہ میں چلتا آیا ہے۔ واۓ قسمت! نہ شکاری نیا ہے نہ ہی جال اور نہ پنچھی مگر یہ پنچھی ایسا بھولا ہے کہ صیاد کے دام میں بار بار اور خود بہ خود پھنستا چلا جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور امریکی صدر پہلے دورے پر روانگی سے قبل وائٹ ہاؤس نے سرکاری ٹویٹر پر دورے میں شامل ممالک کا نقشہ جاری کیا تھا۔ اس نقشہ میں سعودی عرب کے علاوہ اسرائيل کا نقشہ تو شامل ہے لیکن حیران کن طور پر بیت المقدس کا مشرقی علاقہ، دریاۓ اردن کا مغربی کنارہ اور شام کی وادئ گولان کے علاقے شامل نہیں ہیں، یاد رہے کہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں 1967 کی عرب اسرائيل جنگ میں اسرائيل نے قبضہ کر لیا تھا، اگرچہ سرکاری سطح پر عرب لیگ کی جانب سے اس قبضہ کو قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا (شاید اس لیے کہ اسے امریکہ نے بھی سرکاری طور پر ابھی تک قبول نہیں فرمایا) مگر تا حال یہ قبضہ برقرار ہے۔ ان علاقوں کو دورے میں شامل نہ کیا جانا ٹرمپ کی جانب سے کسی حکمتِ عملی کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب چین اپنی تجارت کا جال بڑی سرعت سے پوری دنیا میں پھیلا رہا ہے جبکہ امریکہ کی معیشت فی الوقت شدید دباؤ کا شکار ہے، امریکہ کو آمدنی کے نئے رسورسز تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ کس طرح خلیجی ممالک میں جنگی ماحول پیدا کر کے سکیورٹی رسک کے نام پر عربوں سے دولت اینٹھتا رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے بحیثیت صدر اپنے بین الا قوامی دوروں کا آغاز سعودی عرب کے ساتھ تقریباً تین سو ارب ڈالرز کے معاہدوں سے کیا ہے۔ ان معاہدوں میں ایک سو دس ارب ڈالر کا اسلحے سے متعلق معاہدہ بھی شامل ہے جو کہ وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکہ کی تاریخ کا سب سے بڑا معاہدہ ہے۔ امریکہ نے مزید واضح کیا کہ ان دفاعی معاہدوں کا بنیادی مقصد ایران کی جانب سے دی گئی دھمکیوں کا جواب دینا اور عرب خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہے۔
نئے معاہدوں کے تحت امریکہ خلیجی اڈوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں مزید اختلافات ڈالنے اور زیادہ سے زیادہ ہتھیار فروخت کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور خطے پر اس کی گرفت مزید مستحکم ہوئی ہے جو کہ بطور صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی پہلی بڑی کامیابی ہے ۔ ٹرمپ نے اپنی سیاسی مہم کے دوران شروع سے ہی ایک مخصوص زاویے سے نہ صرف مذاہب کو موضوعِ بحث بناۓ رکھا بلکہ اسلامی ممالک کے متعلق ایک عجیب رویہ اپناتے ہوۓ خطے میں ایک خاص قسم کا تناؤ پیدا کئے رکھا اور آخر کار ٹرمپ نے گرم لوہے پر چوٹ مارتے ہوۓ یقینی طور پر ایک بڑا ہاتھ مار لیا ۔ یعنی ٹرمپ نے صدارت کی کرسی سنبھالتے ہی اپنے آپ کو امریکہ کے لیے بھی ایک بہترین بزنس مین ثابت کیا ہے،
جب میں نے ٹرمپ کے دوروں اور معاہدوں کا ذکر جارج سے کیا تو اس کی ہلکی سی باچھیں کھل گئیں اور اس نے بھنویں اچکا کر کہا
“واؤ ویل پلیڈ !! ویل ڈن ٹرمپ ویل ڈن”

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply