دو ملاقاتیں ۔۔۔روبینہ فیصل/قسط3

 میں اس وقت کوئی باقاعدہ ٹا ک شو نہیں کر رہی تھی ،مگر میری خواہش تھی کہ میں عمران خان کا انٹرویو کر وں ، ذرا وکھری ٹائپ کا ، اسی خواہش کا اظہار ،شبیر چوہدری سے کیا انہوں نے کہا ائیرپورٹ آجائیں، وہی کچھ نہ کچھ بندوبست کر لیں گے ، خان صاحب کی اگلے دن ہی کی فلائٹ تھی ۔ ائیرپورٹ پر پھر سے چاہنے والوں کا جم ِ غفیر تھا۔مگرعمران خان انٹرویو کے لئے، اندر جانے سے پہلے ، ایک کونے میں آکھڑے ہو ئے ۔آج بھی ائیر پورٹ جاﺅں تو وہ کونا ضرور دیکھتی ہوں جہاں ہم چھوٹا سا ہینڈی کیمرہ لے کر خان صاحب کا انٹرویو کر رہے تھے ۔ ۔
عمران خان ، انتہائی خوشی سے جواب دے رہے تھے کہ اسی وقت فیصل نے پاکستان کی سیاست سے ہٹ کر کوئی انڈیا کا سوال پو چھ ڈالا ، فیصل کے غیر متعلقہ سوال سے ، ایک دم اکتا کر بولے ، یہ ہمارا درد ِ سر نہیں ، ہمیں صرف اپنے  آپ پر فوکس رکھنا چاہیے ۔ فیصل کا منہ چھوٹا سا بن گیا ۔۔میں تو بیوی تھی مجھے ایکدم محسوس ہوا ،لیکن اس دن سے میں عمران خان کی انسان پروری کی قائل ہوں ، کہ انہوں نے بھی فوراً  ہی محسوس کیا ، اور چلتے چلتے، فیصل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنے ساتھ کر لیا ، جیسے کوئی بہت پرانے دوست ہوں ۔فلائٹ کا وقت ہو ، اور لوگوں کا ایسا رش ہو ، ایسے کسی کے احساسات کی پرواہ کر نا ۔ ہم لوگوں کے گھر چار مہمان اکھٹے ہو جائیں تو بوکھلاہٹ میں کس کی بے عزتی کر دی کس کو ہرٹ کر دیا ، ہمیں پروا نہیں ہو تی ۔ اور خان صاحب اس مقام پر پہنچ کر بھی اتنی چھوٹی سی بات کے لئے اتنے حساس نظر آئے ۔
اس کے بعد ہم کینیڈا بیٹھے خان صاحب کی سیاسی ترقی کا سفر دیکھتے رہے ۔ اکتوبر 2011 میں مینار ِ پاکستان کے جلسے نے پاکستان کی سیاست کا رخ بدل دیا ۔ عمران خان اب ایک بڑے سیاسی لیڈر بن چکے تھے اور دوسری پارٹیوں سے لوگ دھڑا دھڑ عمران خان کی طرف رخ کر نے لگے تھے اور بیرون ِ ملک پاکستانی امید کے گھوڑے پر چھلانگ مار کر بیٹھ چکے تھے۔
ان حالات کی تبدیلی کے بعد عمران خان نومبر 2012میں پھر سے ٹورنٹو تشریف لائے ۔ ۔ میں بھی اب ایک باقاعدہ ٹاک شو کر نے لگی تھی ۔پی ٹی آئی ٹورنٹو چیپڑ کے دو تین دھڑے ہو چکے تھے ۔ جس ہوٹل میں عمران خان کو رکنا تھا ، اسی کے ہال میں پریس کانفرس تھی ۔جب وہ ہوٹل لابی میں آئے تو ایک سادہ سی جینز اور عام سی شرٹ پہنے ہوئے تھے مگر چہرے پر تناؤ  تھا ۔ اس کی وجہ بعد میں پتہ چلی کہ ٹورنٹو کے دونوں دھڑے عمران خان کے دو دھڑے کرنے پر تلے ہو ئے تھے ۔۔ ایک دھڑا ایک طرف اور دوسرا دھڑا دوسری طرف کھینچ رہا تھا ۔ ہوٹل کے کاؤنٹر  پر چیک ان کرتے ہو ئے عمران خان نے کہا بھوک بہت لگی ہے ، کھانے کی چوائس پوچھی گئی تو جواب آیا : یار ایک نان اور چکن پیس لا دو جلدی سے۔۔ اور ہاں شیو کے لئے کوئی سیفٹی بھی چاہیے۔۔ بھول گیا ہوں ۔۔ اور اس کے بعد وہ کمرے کی طرف چلے گئے ۔
میرے چینل والے بھی وہاں تھے ، مگر میں عمران خان کا انٹرویو نہ کر سکی ۔ کیونکہ چینل والوں کا کیمرہ صرف اپنی پسند کے اینکر کو اس موقع سے مستفید کرنا چاہتا تھا ۔ حالا نکہ پی ٹی آئی کے آرگنائزر ، میرا انٹرویو کروانا چاہ رہے تھے اور اس وقت کے قائم مقام قونصل جنرل ، ان کا نام بھول رہی ہوں ، ان کی بھی ہمدردیاں میرے ساتھ تھیں ، آخر کو پاکستان کی حمایت میں اور انڈیا کے غلط کاموں کی مخالفت میں ، ایک میں ہی
 تو تھی جوپنگا لے لیتی تھی ۔ بہر حال ان دو حمایتوں کے باوجود عمران خان کا انٹرویو میں نہیں کر سکتی اس کا انداز ہ مجھے اپنے چینل والوں کے اکھڑے اکھڑے رویے دیکھ کر ہو چکا تھا اور مجھے فوزیہ قصوری کا انٹرویو کر نے کی اجازت دے کر وہ اپنا ضمیر بھی مطمئن کر چکے تھے ۔ مگر میں نے اس کا ایک حل سوچ لیا کہ میں اپنے سوالات پریس کانفرس میں ہی پو چھ لوں گی ، مقصد تو خان صاحب کے جوابات سے ہے ،جیسے بھی مل جائیں۔۔ خیر پریس کانفرس میں بھی دو سوال پر پرسن کی پابندی کا اعلان ہوا ۔۔ میں نے جلدی جلدی اپنے سات آٹھ سوالوں کو دو سوالوں میں لپیٹا ۔۔ ۔۔ خیر اپنی باری پر میں نے خان صاحب کے انقلابی نعروں پر سوال پو چھا ، جواب دیا تو دوسرا فالو اپ سوال نکل آیا کیونکہ مجھے خان صاحب انقلاب کے معاملے میں معصوم سے لگے ۔ فالو اپ سوال کے بعد دو سوالوں کی آپشن ختم ہو چکی تھی ۔ لیکن میرا تو تیسر ا سوال باقی تھا جو کہ اصل میں دوسرا تھا ، میں نے پو چھنے کو منہ کھولا ہی تھاکہ خان صاحب کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے جیالوں نے شور مچا دیا کہ وقت ختم ہوا ۔۔ خان صاحب نے کہا: “نہیں نہیں پوچھنے دو ۔۔” خان صاحب میرے چہرے پر پھیلی ہو ئی غیر اطمینانی کی لہر محسوس کر چکے تھے ، جو ان کے کچے پکے جوابات سے ابھر رہی تھی ۔ اس لئے انہوں نے تیسرے سوال کی اجازت دی ۔۔ میں اتنے شور میں سوال بھول چکی تھی ۔۔ میں نے کہا”: اب میں بھول گئی ہوں، اتنے شور میں ۔۔ ۔” خان صاحب اور باقی لوگوں کا قہقہہ  گونجا ۔۔خیر اس دوران مجھے سوال یاد آگیا ۔۔ وہ بھی ہو گیا ۔ پھر پریس کانفرس بھی ختم ہو ئی۔ اب خاص انٹرویو کے لئے خان صاحب کو ایک طرف دھکیلا جا نے لگا ۔۔ دھکم پیل میں بھی خان صاحب نے میری کرسی کے پاس سے گزرتے ہو ئے پو چھا : “آپ مطمئن ہوئی ہیں ؟ :میں نے کہا” نہیں” ۔
اس کے ساتھ ہی خان صاحب کو دھکے کے ساتھ میرے ہی چینل کے ایک اینکر کے سامنے کر دیا گیا ۔۔ ایسی ناانصافیاں میری  برداشت کی بات نہیں مگر خان صاحب کی حالت دیکھ کر میں اپنی بے بسی بھول گئی ۔۔ بہرحال اب تعصب کی اس فضا میں اندر بیٹھنا ممکن نہ تھا، سو باہر آگئی۔وہاں کسی ھوپ نامی این جی او کے تین لوگ،ایک انڈین ،بنگالی لڑکے اور ایک پاکستانی لڑکی بیٹھے تھے ۔۔ وہ مجھے کہنے لگے کہ ہم نے آپ کے سوال سنے ، وہ پریس کانفرس کے سوال نہیں تھے ۔آپ کو خان صاحب کا الگ سے انٹرویو لینا چاہیے  تھا ۔ آپ کو تاریخ ، انقلاب اور سیاست کی خوب سمجھ لگتی ہے ۔ میں نے کہا میں بھی اسی لئے آئی تھی کہ خان صاحب ہماری امیدوں کا مرکز ہیں ، تو ہمارے ذہنوں میں جو سوال ہیں ،خان صاحب کے جوابات کی روشنی میں ہم انہیں جانچ سکیں ۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکا ۔۔
وہ کہنے لگے ہاں !! خان صاحب سے ملنا اب بہت مشکل ہو گیا ہے ۔میں نے کہا خان صاحب تو اب بھی ویسے کے ویسے ہیں ۔۔ وہ تو ابھی تک شبیر کو دیکھ کر ویسے ہی خوشی سے چلا اٹھے تھے : “دیکھو شبیر میں آگیا ۔۔۔ “جیسے کوئی بچپن کے بچھڑے دوست بہت عرصے بعد ملے ہوں ۔ ان تینوں نے میری تائید کی اور کہا: “ہاں یہ انسان بہت سادہ مزاج ہے ،مگر اب لوگ انہیں نہیں چھوڑتے “۔ میں نے ان سے پو چھا :
“آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں ؟, “ہم نے 30000کا چیک خان صاحب کو دینا ہے ، ان کا جو ریسرچ سنٹر ہے اس کے لئے ۔۔ اور ہم کوئی پانچ چھ گھنٹے سے انتظار میں ہیں کہ خان صاحب سے ایک منٹ کے لئے مل لیں ۔۔۔۔”
میں ہنسنے لگی ۔۔ وہ پریشان ہو گئے ۔۔” آپ ہنس کیوں رہی ہیں؟ ” میں نے کہا ۔۔” آپ کا غم مجھ سے بڑا ہے ۔۔ میں تو بغیر پیسے خرچے ،مفت میں خوارہو رہی ہوں اور آپ تیس ہزار کا چیک پکڑے ۔۔” وہ سب بھی ہنس دئیے۔
اسی دن خان صاحب کو واپس جانا تھا ۔ سنا ہے کینیڈا میں ان کے کسی حاسد نے کینیڈین گورنمنٹ کو شکایت لگا دی کہ وہ منی لانڈرنگ کر کے جا رہے ہیں۔ ائیر پورٹ پر ہی خان صاحب کو بٹھا لیا گیا ، ان کی امریکہ کی وہ فلائٹ مس ہو گئی ۔۔ کافی مصیبت کے بعد وہ ٹورنٹو شہر سے جانے میں کامیاب ہو ئے۔ ہوپ والوں کا انتظار ،خان صاحب کی کھجل خواری، میرا خان صاحب سے سوال پوچھنے کا جنون ۔۔۔۔ ہم سب کسی نہ کسی اچھے مقصد کے لئے اپنے اپنے حصے کی اذیت جھیل رہے تھے۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply