انا خیراً منھم

آج قرل بہت خوش تھا، آج اسکو ہزہائنیس سے سندِ فضیلت ملنے والی تھی اور وہ کیوں نا خوش ہوتا آج اسکو ہزہائنیس کا دیدار اور ملاقات کا شرف بھی حاصل ہونے کو تھا۔

کافی بیزار کن انتظار اور وقتِ مقررہ کے کئی گھنٹوں بعد جب ہزہائنیس کی آمد ہوئی تو ساری ذریت اپنے سر کے بل کھڑی ہوگئی۔ تب اس نے سب کو یوں دیکھا کے جیسے وہ اپنی ذات میں بِجّو ہو جیسے کوئی حقیر ذلیل مخلوق ۔ پر اگلے ہی لمحے اسے اپنے ہزہائنیس ہونے کا احساس ہوا اور اندر سے آواز آئی—— انا خیراً منھم——— اور پھر ساری ذریت اسکو حقیر اور ذلیل دکھنے لگے۔

اس نے سب کو اپنی جگہ بیٹھنے کو کہا اور اپنے نام کی ثناء سے تقریب کا آغاز کیا۔ وہ اپنا ہی ثناء خواں تھا۔اپنی تعریف میں رطب اللسان۔ اس دیر طلب راگنی سے سب ہی بے زار تھے مگر قرل بے چین بھی تھا کہ کس طرح اپنے کارناموں کا دفتر کھولے اورسندِ فضیلت پاکے مقرِبوں میں ہوجائے۔تب اس نے بات کاٹی اور اپنی رپورٹ پیش کرنے کی اجازت چاہی۔ ہزہائنیس یعنی ابلیس کو قرل کا روکنا زہر لگا پر اسکی آنکھوں میں بدی کا اندھیرا دیکھ کر اس کی امید بندھی اور اس نے فرداً فرداً پریزینٹیشن کا آڈر دیا۔

قرل نے ابلیس کی ضلالت اور اشلیلتا کی حمد و ثناء کی اور بتانا شروع کیا۔
زوار کو اس نے کس طرح اﷲ کے قرب سے روکا۔
زوار حد درجہ گھٹیا انسان تھا لیچڑ گفتگو، آوارگی، جوا، شراب، لڑکی، مستی غرض سارے عیوب کا مجموعہ زوار——–
پر اپنے ان گناہوں کو گناہ سمجھنے والا زوار ——-
خود کو سنجیدگی سے شیطان اور جہنمی سمجھنے والا زوار——–
گناہگار پر عاجز زوار —-
ایک رات اچانک اسکی آنکھ کھلی اور خود میں ایک جذب ایک عجیب سی کیفیت پائی جو اس سے پہلے کبھی نا تھی۔سمجھ نا آنے والی بے چینی —— جیسے روح کو گرما رہی ہو۔ جو دل کو پگھلا رہی ہو۔
کہ اچانک اس کے من میں وحدہ لاشریک کے آگے سجدہ ریز ہونے کی خواہش جاگی اور دل کی دھڑکن تیز سے تیز تر ہونے لگی ۔ اس نے کسی میکانیکی انداز میں وضو کرنا شروع کردیا مگر اسکی سانس اور دل دونوں بہت تیز چل رہے تھے اور اسکے گرم گرم آنسو اسکی آنکھوں سے یوں گررہے تھے جیسے یہ ندامت کے آنسو اسکو دھو دینے کے لیے نکل رہے ہوں۔ اسی جذب کی کیفیت میں وہ مسجد کی اُور چلا تہجد کی پروائی اسے منزل مقصود تک جیسے پہنچانے پر مُصر تھی۔ دور کہیں سے تہجد کی اذان سنائی دے رہی تھی جو اسکو اذانِ بلالی سی محسوس ہوئی۔اسکے تیز مگر مستحکم قدم رب العزت کی طرف بڑھ رہے تھے کے اچانک ——— کوئی تیز رفتار گاڑی جیسے اسکرین پھاڑ کر نکلی اور اسکو روندتے ہوئے جیسے واپس اسکرین میں گھس گئی۔ اور بے چارہ زوار قرل کے کرتوت سے مسجد کی بجائے کئی ماہ تک ہلنے جلنے سے قاصر ہوگیا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کمبخت——- ابلیس دہاڑا —– اس کا ظلمت بھرا چہرہ مزید سیاہ ہوگیا اور اسکی ہیبت ناک شکل سے تمام ذریت کا دل جیسے بند ہونے کو آگیا۔
قرل اپنی شاباشی بھول کر اسکو حیران و پریشان تکنے لگا۔ “کمبخت یہ تو نے کیا کردیا”۔
ہزہائنیس میں نے تو وہ کیا جو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
بند کر اپنی بکواس—–ابلیس دہاڑا —-جانتا ہے وہ آدم زاد کتنے دنوں تک کے لئے بستر پر یونہی پڑا رہے گا؟
قرل خوش ہوکے—– جناب کم از کم چھ ماہ کمر پیر ہاتھ سب کی ہڈی توڑی ہے۔ کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
ارے غلطی میری ہی ہے۔ میں نے ہی تم لوگوں کو اپنے دشمن کا مکمل تعارف نہیں کروایا۔خیر آج کی تقریب کو میں کرش کورس میں تبدیل کرتا ہوں اور اب اسکو اپنے ہر نصاب کا لازمی حصہ بناؤں گا۔
تو سنو۔میرا دشمن رحمان ہے کون…؟ رحمان..! اپنی ہر مخلوق اور ہر انسان سے محبت کرنے والا ۔لیکن اسکو اپنے عاجز بندے بیحد پسند ہیں۔اور اس کی نظر ہرایک پر رہتی ہے۔ لیکن اس کی نظر میں وہ گناہگار جو عاجز بھی ہو اس کی رحمت کے زیادہ قریب ہے۔اور بس ایک لمحہ ہوتا ہے۔ جب وہ عاجز گناہگار اپنے رب کی طرف پلٹ جاتا ہے۔بس وہی ایک لمحہ ہوتا ہے جب میں———–ہائے—میں بھی بے بس ہوجاتا ہوں۔میں اور میری ذریت اس پر کس قدر کام کرتے ہیں۔ اپنا وقت لگاتے ہیں۔ مگر میرے دشمن نے بھی مجھ سے اچھی نبھائی ۔ندامت کا ایک آنسو اسے ایسے دھو دیتا ہے جیسے آج ہی ماں سے جنا ہو۔—— اور ہائے کمبخت تونے تو اُسے ایسے ہی وقت مارا جب وہ پلٹ گیا تھا دھل گیا تھا۔اپنے رب کی رحمت میں گِھرچکا تھا—— تو جانتا ہے میرے دشمن نے نیتوں پر بھی ثواب رکھ کر مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔بری نیت جب تک عمل میں نا بدلے تب تک گناہ نہیں لکھا جاتا پر نیکی کی سوچ —-نیت—–ہائے کمبخت تو نے اسے چھ مہینے کا تہجد گزار + پنج وقتہ نمازی لکھوادیا۔ارےےے —ارےےےے
تو ہزہائنیس آپ وہاں ہوتے تو آپ کیا کرتے—–(قرل کا انداز ایساتھا جیسے پوچھ رہا ہو کے آپ کیا تیر مارتے) — ابلیس نے زہرناک نگاہوں سے اسے دیکھا اور کہا ——-
میں ایسے وقت رفع حاجت کا خیال اس کے دل میں ڈالتا اور اس احساس کو مزید بھڑکاتا۔حتی کہ وہ فارغ ہوجاتا—–تب میں اسکو ناپاکی کا احساس دلاکے اسکی اس جذب کی کیفیت کو کم کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ۔ اور اسکو کسل مندی دلاتا——-یوں ہی میں ابن آدم کے اندر داخل ہوجاتا ہوں۔اور اسکی کیفیات پر قابو پاکے اسکی رگوں میں گردش کرتا ہوں۔
یہ کہہ کر اس نے اپنی مایوس ذریت کو دیکھا۔ اور کہا کوئی بات نہیں یہ بہت ہی بڑا نقصان ہے۔ مگر اسکا ازالہ ممکن ہے۔تم لوگوں کا ٹاسک اور ٹارگٹ اب وہ لوگ ہیں جو بہت دین دار— عالم —فاضل— سخی وغیرہ وغیرہ ہیں پر ساتھ ہی ساتھ اپنی نیکیوں کے زعم میں مبتلا ہیں——– پس جاؤ انکو غرور میں مبتلا کردو غرور آیا اور ساری نیکی غارت——– یہ کہہ کر ابلیس کو اپنا رتبہ اور اس سے گرنا اور وجہ جسکی بنا پر اس نے یہ ٹاسک پکڑایا تھا— یاد آگیا اور وہ سینہ کوبی ماتم اور قمہ کرنے لگا——ہائےےےے میرا رتبہ—–آدم تُو تو گیا——تیری اولاد کو نہی چھوڑوں گا—-قرل اور اسکے سارے چیلے چپاٹے نکل بھاگے۔کہ کہیں ہزہائینس مزید کوئی نیا ٹارگٹ نا دے دیں۔

Facebook Comments

*سعدیہ کامران
پیشہ مصوری -- تقابل ادیان میں پی ایچ ڈی کررہی ہوں۔ سیاحت زبان کلچر مذاہب عالم خصوصاً زرتشت اور یہودیت میں لگاؤ ہے--

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply