ٹھہریے مولانا صاحب،سُنیے (آخری حصہ)

مفتی صاحب کا ایک اور مفروضہ جس کی بنیاد پہ انہوں نے یہ نتیجہ کشید کیا کہ بلاسفیمی کے معاملے پہ لوگ جو قانون کو ہاتھ میں لے رہے ہیں یہ جنرل مشرف کے دور میں کی گئی ان تبدیلیوں کے باعث ہے جو کہ بظاہر اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کےلئے کی گئیں تھیں۔ اب اگر مفتی صاحب تھوڑا سا وقت نکال کے ایسے کیسز کی ذرا سی ہسٹری لے لیں تو کچھ ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جن کو جھٹلانا کسی بھی با عقل شخص کے لئے قابلِ قبول نہیں ہے ، مثلاً رمشا مسیح کے کیس میں ثابت ہوا کہ اس نے گستاخی نہیں کی بلکہ ایک مقامی مولوی نے اسے اس کیس میں پھنسایا تھا لیکن پھر بعد میں ان حضرت کو بھی چھوڑ دیا گیا ۔ 1991 میں چاند برکت کو کراچی میں پھنسایا گیا اور 15 ماہ تک اسے جیل میں رکھا گیا بعد میں چھ مسلمان گواہوں نے شہادت دی تو اس کی ضمانت ہوئی لیکن پھر اس کے بعد اپنی جان بچانے کی غرض سے اسے اپنا محلہ چھوڑنا پڑا جس کا باعث یہ بتلایا جاتا ہے کہ جن صاحب نے ان پہ کاروباری حسد میں یہ الزام لگایا تھا وہ ایک گروہ بنا کے برکت صاحب کو مارنے کے درپے ہو گئے تھے۔
ایک اور ایسے ہی واقعہ میں (1992) ایک ہجڑے گل مسیح پر یہ الزام لگا کہ اس نے گستاخی کی ہے اور صرف ایک شخص کی گواہی پہ (جو کہ خود مدعی تھا) ، جبکہ دو لوگوں نے یہ گواہی دی تھی کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں سنا، جج صاحب نے پھانسی کی سزا سنا دی بعد میں ہائر کورٹس نے اس کو ختم کر دیا لیکن پھر بھی گل مسیح کو بیرون ملک پناہ لینی پڑی حیرت کا مقام تو یہ ہے اس کا بھائی بشیر جو کہ اس واقعہ کا دوسرا ملزم تھا اور جو موقع پر ہی موجود نہیں تھا اس کو بھی ایف آئی آر میں فریم کیا گیا لیکن گاؤں والوں کے پولیس سٹیشن کے سامنے احتجاج کرنے پر ہی اسے رہا کیا گیا۔ سب سے دلچسپ بات اس فیصلہ کرتے وقت وہ موقف تھا جو کہ جج صاحب نے اس پھانسی کی سزا کی دلیل کے طور پہ ارشاد کیا ان کا کہنا تھا کیونکہ مدعی سجاد حسین ایک 21 سال کا نوجوان ہے اور بی اے کا طالبِ علم بھی ہے اور ایک مسلمان بھی ہے جس کے چہرے پہ داڑھی ہے اس لئے میرے پاس شک کرنے کی کوئی گنجائس نہیں ہے کہ اس نے جھوٹا الزام لگایا ہے۔ اس طرح سلامت مسیح کو عدالت سے رہائی کے باوجود عدالت کے سامنے قتل کر دیا گیا اور پھر 1998 میں عارف بھٹی نامی جج کو بھی قتل کر دیا گیا کہ اس نے کیوں ملزم کو بری کیا اور اس سارے واقعہ کے پیچھے سپاہ صحابہ کے لوگ موجود تھے۔
اس جیسے اور بہت سارے کیسز ملزموں کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بعد میں چھوڑنے پڑے اور جب اختر حمید خان ( کورنگی ڈیولپمنٹ اور دیہی ترقیاتی اداروں کی ابتدا ء ان کے ہی دم سے ہوئی) جیسے لوگوں پر ایسے جھوٹے الزام لگنے لگے تو حکومت کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ کوئی تو ایسا سیف گارڈ بنائے کہ جس کے باعث کم ازکم ہی سہی لیکن کچھ تو ایسے جھوٹے کیسز فائل کرنے کی حوصلہ شکنی ہو اس لئے صرف اتنا کیا گیا کہ ایس پی لیول کے افسر کی منظوری کے بنا کیس درج نہ کیا جائے جس کا مقصد بے سر و پا الزامات کی تعداد کا کم کرنا تھا لیکن اس کو گستاخی کے ملزمان کے بڑھتے ہوئے قتال کے جواز کے طور پہ پیش کرنا تو حقائق پہ پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ حقائق ہمیشہ تلخ ہوتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ گستاخی کا قانون اب مذہبی جماعتوں اور گروہوں کا اپنے آپ کو سیاست اور سماج میں رکھنے کا واحد آلہ ہے اور اس کو یقیناً وہ اتنےآرام سے اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔
تھوڑا سا اگر مفتی صاحب ، چاند دیکھنے کے علاوہ ، آج تک کے بلاسفیمی کے کیسز پہ ایک نظر دوڑا لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ٹوٹل 1251 کیسز میں صرف 14 کیس 1986 سے پہلے دائر کیے گئے یعنی 1860 سے 1986 تک یعنی 126 سالوں میں 14 اور 30 سالوں میں 1236 کیسز ،حیرت انگیزبات یہ ہے کہ قریباً اسی دور کے دوران قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا، مدرسوں کی پرداخت کی گئی اور عمومی طور پہ مذہب کا دائرہِ اثر معاشرے اور ریاست میں اس قدر مضبوط ہوا جو کہ اس سے پہلے اس خطے کی تاریخ میں بھی کبھی نہیں تھا۔ اس سارے قصے کی ایک اور کڑی جو کہ مشال کے قتل میں ایک نئی شکل میں سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ آرگنائزڈ گرہوں کا الزام لگانے کے پیچھے موجود ہونا سب سے پہلے یہ کام سپاہ صحابہ نے شروع کیا اور پھر سب اس میں شامل ہوتے چلے گئے۔شروع میں کوشش کی جاتی تھی کہ ملزم کو عدالت سے سزا دلوائی جائے لیکن جب زیادہ تر لوگوں کو عدم ثبوت کی بنا بریت ملنے لگی تو پھر ان کو عدالت سے باہر ہی قتل کرنے کی ریت ڈلی اور سلمان تاثیر کے قتل کے بعد تو کیونکہ ان تمام گرہوں کو جو مذہب کے نام پہ خوف کی سیاست کرتے ہیں ایک ہیرو مل گیا تو کام مزید آسان ہو گیا ۔ اب معاملہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ الزام لگاؤ قتل کرو اور پھر قاتلوں کے حق میں جلوس بھی نکالو۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے کچھ دوست جو یہ گمان کرتے ہیں ، مفتی صاحب کا فتوی بھی یہی ہے، کہ قانونی جمع تفریق سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا وہ ابن مریم کی طرح مرہم بیچنے کی تمنا میں مبتلا ہیں ،جب کہ بلاسفیمی کا مسئلہ سیاسی ہے اور سماج میں موجود سارے آرگنائزڈ سیاسی، معاشی، دہشت گرد اس قانون کا سہارا لے کر معاشرے پہ اپنی گرفت برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
مفتی صاحب آپ نے فرمایا علمائے کرام کو ساتھ بٹھایا جائے اور نئی سفارشات مرتب کی جائیں ۔ یہ بھی کیا خوب کہی کہ میر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیں جس کے سبب بیمار ہوئے ۔۔۔۔جناب علمائے کرام تو خود اس قانون کا غلط استعمال کرنے کے مرتکب پائے جا چکے ہیں اور ویسے بھی اجتہاد تو ہمارے ہاں کفر ہے اور تقلید کی رو سے جو کچھ فقہ حنفی کی کتب میں موجود ہے اس سے مدد لی جا سکتی ہے اس لئے مولویوں کو کوئی حق ہی نہیں کہ وہ اس بات کے قریب بھی پھٹکیں ۔ جناب آپ کے پاس عوام کی نمائندگی کا کوئی حق ہی نہیں ہے پاکستان کے آئین اور قانون کی رو سے پارلیمنٹ ہی قانون بنائے گی اور ترمیم کرے گی کیونکہ مذہبی گروہ الیکشن نہیں جیت سکتے اس لئے تو وہ ایسے مذہبی ایشوز کی آڑ لے کے سیاست کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہمیں آپ کی کوئی رائے نہیں چاہیے سب کچھ کتابوں میں موجود ہے ہم ڈھونڈھ لیں گے۔ اسی رو میں بہتے ایک اور سنہری پھلجھڑی جو آپ نے چھوڑی وہ یہ کہ ایسے کیسز کو شریعت کورٹ کے حوالے کیا جائے تو جناب آئین کی رو سے شریعت کورٹ سپریم کورٹ کے نیچے ہے اس لئےاپیل کا حق ملزم کو سپریم کورٹ میں بھی ملے گا چناچہ آخرِ کارکیس کو اسی عدالتی نظام میں لانا ہو گا تو پھر کس لیے شریعت کورٹ کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے؟ پہلے ہی پاکستان میں متوازی تعلیمی نظام موجود ہیں پھر متوازی عدالتی نظاموں کی پیدائش ہونے لگی، دہشت گردی روکنے کیلئے ملٹری کورٹس بنائے گئے اب بلاسفیمی کیلئے شریعت کورٹس کی سفارش ہے کل آپ فرمائیں گے کہ متوازی پارلیمنٹ بھی بنا لیں ۔ حضور ایسا کب تک چلے گا ؟کب تک ایڈہاک ازم کی بنیاد پہ ملک کو چلانے کا ارادہ ہے ؟علما کی باتیں سن کے لگتا ہے کہ اب شریعت بھی ایڈہاک پہ ہی چلے گی۔
مسئلہ قانون کا نہیں ہے سیاست کا ہے عوام بھڑکتی نہیں ہے بھڑکائی جاتی ہے ہمارے مذہبی لوگ (اور اس میں تمام طرح کے لوگ شامل ہیں) عدالتوں سے فیصلہ نہیں اپنی مرضی کا فیصلہ مانگتے ہیں اور وہ کیونکہ نہیں مل سکتا ا س لئے اب انہوں نے یہ نیا طریقہ نکالا ہے کہ الزام لگاؤ اور قتل کرو اور پھر ریاست کو بلیک میل کرو ۔جب سے یہ ملک بنا ہے مذہبی حلقے طبقے اور گروہ اسی بلیک میلنگ کی سیاست کر رہے ہیں کبھی معاشی حقوق کی بات مذہبی لوگوں نے نہیں کی کبھی استحصال آپ لوگوں کا مسئلہ نہیں رہا کبھی عورت پہ ہونے والا سٹرکچرل ظلم آپ کو نظر نہیں آتا، اقلیت کا تحفظ کبھی آپ لوگ نہیں کر پائے سرمایہ داری کی لوٹ مار کو آپ نے مذہب سے مدد لے کے واجب کیا ،طلبہ سیاست میں تشدد کو بڑھاوا آپ لوگوں نے دیا ،افغان جہاد کے نام پہ لوگوں کے بچے مروانے میں آپ کا حصہ ہے اور اب چاہ رہے ہیں کہ آپ کو ہی نمائندہ مان لیا جائے۔جناب ایسا ظلم انصاف کے ساتھ عدل کے ساتھ رواداری کےساتھ یہ تو صراصر دھونس ہے کہ جو قاتل ہیں وہی مسیحائی بھی کریں۔
، مذہبی لوگوں نے اپنی عادت اور نظریے کے تحت ہمیشہ ماضی کی سیاست کی ہے جس کا واحد مقصد سوائے طفیلیوں کی طرح سماج میں پیدا کی گئی دولت سے اپنا حصہ وصول کرنا ہے کیا میں اور میرے جیسے اور بہت سے خاموش لوگ آپ سے یہ سوال کر سکتے ہیں کہ آپ کے پاس معاشرے کے مستقبل کا کیا خاکہ ہے؟ مستقبل ماضی سے نہیں حال سے نکلتا ہے جناب خلافتِ راشدہ کے داعیوں نے افغانستان اور شام کا جو حال کیا ہے اس سے ظاہر ہے کوئی بھی سمجھدار پاکستانی اب خلافت کا ماڈل پاکستان میں لگانے پہ اصرار نہیں کرے گا اس کے علا وہ آپ لوگوں کے پاس معاشرے کو دینے کےلئے کیا ہے؟۔جب سے پاکستان بنا ہے مودودی صاحب سے لے کر آپ تک کوئی خیر کا علم آپ پیدا نہیں کر سکے جو انسان کو انسان کے ساتھ جوڑے آپ نے تفریق پیدا کی ہے اور غربت میں لتھڑی ہوئی محرومی کو مذہب کے نام پہ ریاست کی جنگ میں جھونکا ہے آپ نے ڈالر بھی کھائے ہیں اور اب آپ روبل اور یوآن بھی کھائیں گے کوئی ہے جو آپ کا مواخذہ کرے ؟کوئی ہے جو آپ لوگوں کی آستینوں پہ پڑے خون کے دھبوں کا حساب کرے ؟ کوئی ہے جو یہ پوچھے کہ علم جو کہ دلیل سے بنتا ہے کس طرح آپ لوگوں کے ہاتھ برباد ہوا ؟کوئی ہے جو آپ کو گریبان چاک کرے اور پوچھے کیسے آپ نے علم ، عقیدے اور سیاست کو اپنے پیٹ کی خاطر یوں گڈ مڈ کیا کہ اب ہمارے نوجوان تینوں میں فرق کرنے سے ہی قاصر ہیں اور پھر بھی ڈھٹائی ایسی کہ اب بھی سب کو بتلا رہے ہیں کہ مسئلہ مقتول نہیں بلکہ قاتل کی بات نہ سننا ہے اگر قانون گستاخ کو سزا دے تو لوگ اسے قتل نہیں کریں گے اسی لئے شاید عدم نے کہا تھا
شیخ صاحب یہ مقابلہ کیسا
ہمسری کیا شراب نوشوں سے
اک عصمت فروش بہتر ہے
آپ جیسے خدا فروشوں سے!
نوٹ(یہ مضمون صاحبِ مضمون کی درخواست پر لگایا گیا ہے۔ اس کے مندرجات سے مکالمہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ہے۔)

Facebook Comments

اسد رحمان
سیاسیات اور سماجیات کا ایک طالبِ علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply