فاحشہ

بٹ بہادر میرے بچپن کا یار ہے اور بچپن کے یاروں میں ایک برائی ہے کہ نہ بڑے ہوتے ہیں نہ بڑا ہونے دیتے ہیں۔ مثلا کہ آج وہ چار بچوں کا باپ ہے مگر ملتے ہی سوال ایسا کرے گا جو ایک ٹین ایجر ہی ٹین ایجر سے پوچھ سکتا ہے۔ میری شادی پر بٹ میرا "بیسٹ مین" تھا۔ شادی کی تقریب ختم ہوئی تو میرے اور میری سابقہ بیگم کے پاس کھڑا ہی مجھے کہنے لگا "بھابی کو وہ "ف" کے متعلق بتایا ہے۔ میری ٹانگیں ایک مرتبہ لرز گئیں اور پنجابی میں تین چار فحش ترین گالیاں اسکی نذر کر کے کہا کہ تجھے "ف" عین میری شادی کے وقت ہی یاد آنی ہے؟ شکر ہے جولیا کو اردو پنجابی نہیں آتی تھی ورنہ میں وہ واحد دولہا ہوتا جو عین شادی کے دن طلاق یافتہ ہو جاتا۔ گو طلاق بری بات نہیں مگر شادی والے دن ہی ہونا بہت بری بات ہے۔
بٹ کا نوجوانی میں اپنی ایک ہمسائی سے تعلق قائم ہو گیا۔ بٹ صاحب روزانہ رات کو کوٹھا ٹاپتے اور محترمہ کے کمرے میں پہنچ جاتے۔ کچھ عرصے بعد محترمہ شائد بٹ کا بچپنا مزید برداشت نا کر پائیں تو رشتہ ٹوٹ گیا۔ اب بٹ جس لڑکی کو "تیری بھابی" کہ کر ہر وقت تعریفیں کرتا تھا، اسی کی برائیاں کرنے لگا۔ ایک دن میں نے کہا یار اتنی بھی بری نہیں تو کہنے لگا تجھے نہیں پتہ گشتی ہے پوری۔ کیوں؟ میں نے ناگواری سے پوچھا۔ بولا جو حرکتیں میرے ساتھ کرتی رہی، گشتی نا کہوں تو شریف کہوں؟ میں نے غصے پر قابو پاتے ہوتے نیم فحش گالی دی اور کہا کہ یہ حرکات تم دونوں نے مل کر کیں۔ اگر وہ گشتی ہے تو تو بھی تو بھڑوا ہوا۔ اگلے تین ماہ ہماری بول چال بند رہی۔ بٹ کی بات پر غصہ اپنی جگہ، مگر یہ ہی ہماری معاشرتی سوچ ہے، لڑکی ہمیشہ گشتی ہی قرار پاتی ہے۔
کوئی خاتون ہیں سعدیہ قریشی، دائیں بازو کے ایک اخبار میں کالم نویس۔ محترمہ کو غصہ تھا کہ قندیل بلوچ پر فلم کیوں بنائی جا رہی ہے۔ اور کالم، جو ایک نیشنل اخبار میں چھپا، میں فرمایا کہ قندیل بلوچ اپنی شخصیت میں فقط ایک فاحشہ تھی۔ ہمارے ایک دوست نے انتہائی فخر سے اسے شیئر بھی کیا اور مجھے مزید دکھ ہوا کیونکہ وہ انتہائی نستعلیق انسان ہیں۔
قندیل بلوچ کیا تھی یا نہیں، اس پر فلم بننی چاہیے یا نہیں، ایک یکسر مختلف موضوع ہے۔ ایک معاشرہ جہاں پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی خوبصورت لڑکی اپنی زندگی کو بہتر کرنے کے خواب دیکھتے ہوے دلدل میں اتری، سوشل میڈیا کو اپنے دماغ سے ایسے استعمال کیا جیسے ایک ہم جیسے معاشرے میں کرنا چاہیے اور مشہور یا بدنام ہو گئی۔ پھر "مقدس مورتی" کی گستاخی کی مرتکب ہوئی اور ایک دن اسی سانپ کے ہاتھوں ڈسی گئی جسے دودھ پلا رہی تھی۔ یقینا قندیل بلوچ کوئی آئیڈیل شخصیت یا قابل تقلید مثال نہیں تھی مگر وہ ہمارے معاشرے کا المیہ تھی۔ اور کیا بہترین ادب المیہ ہی جنم نہیں دیتا؟ کیا بہترین ناول اور فلمیں معاشرتی المیوں پر ہی نہیں بنائی گئیں؟ قندیل پر لکھنے کیلیے منٹو جیسا قلم اور فلم بنانے کیلیے ستیہ جیت رائے یا گلزار چاہیے۔ گو مجھے یقین ہے کہ اس پر جو لوگ فلم بنا رہے ہیں وہ شاید قندیل کی کمائی مشہوری سے شاید بس اپنا حصہ لینا چاہتے ہوں، مگر پھر بھی میں انکے اس حق کی "پری ایمپٹو مخالفت" کے حق میں نہیں۔
ہمارے دائیں بازو کے لکھاریوں کا ایک بڑا مسلئہ خود کو مصلح اور ریفارمر سمجھنا ہے۔ وہ قلم کو چھڑی بنا کر قوم کے اخلاق درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کئی بار اسی کوشش میں خود اخلاقی گراوٹ کے اس مقام پر پہنچتے ہیں کہ اپنے کالم میں کسی کو گالی بک دیں، جیسے سعدیہ قریشی نے کیا۔ سعدیہ قریشی نیک خاتون ہوں گی، مگر ایک مرحوم عورت کو گالی بکنے کا اختیار انکو کس نے دیا؟ سعدیہ قریشی کو اچھے حالات میسر ہوں گے جن میں انھوں نے تعلیم پائی اور لکھنے کا ہنر پایا۔ سعدیہ کے پاس جو ہنر ہے وہ بیچتی ہیں اور قندیل کے پاس جو ہنر تھا وہ بیچتی تھی۔ اپنے مڈل کلاس گوشہ عافیت میں بیٹھ کر کسی کو فاحشہ کہنے والی خاتون کو میں نرم سے نرم الفاظ میں بھی بس یہ کہ سکتا ہوں کہ خدا تجھے برے وقت سے بچائے۔
صاحبو، ویسے قندیل بلوچ تو ہماری اخلاقی روایت کے عین مطابق فاحشہ تھی مگرپوچھنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ اسکے ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ فالورز کیا تھے؟ امید ہے بٹ کی طرح آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں گے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply