پاکستانی افواج اور مسلکی تقسیم کی ناکام کوشش

کتنا عجیب سا محسوس ہوتا ہے جب ملک کے اہم لکھاری اور دانشور حضرات اپنی تحریروں میں اس بات کو موضوع سُخن بنائیں کہ ملک کی سرحدوں کی محافظ افواج میں بھی مسلکی تقسیم موجود ہے اورہر دانشور اس بات کو ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے کہ مسلکی تقسیم کے اثرات جلد ہی ملک کی افواج میں اسی طرح نفوذکر جائینگے جیسے کہ مملک خداداد پاکستان کے عام شہری اسکا شکار ہیں۔ آج کل سابقہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا سعودی اتحاد کی کمانڈ کرنا ہی مملکت خدادادا پاکستان کے دشمنوں کیلئے ایک تازیانہ ہے اور موجودہ حالات میں ہمارے برادر ملک ایران کے فوجی سربراہ کا دھمکی آمیز بیان وہ عوامل ہیں جنکی اساس پر ہمارے نام نہاد لکھاری اور دانشوران حضرات اس بات کو ہر سطح پر اُچھالنے پر اپنا حق سمجھتے ہیں کہ دراصل جو موقف وہ بیان کر رہے ہیں اصل میں وہی سچائی ہے اور باقی ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر بے سروپا باتیں دراصل ایک ایسی سازش ہے جس سے وہ افواج پاکستان میں موجود تمام مسالک کے جوانوں میں وہی شوریدہ صورتحال پیدا کرنا مقصود ہے جو کہ وہ پاکستان کے ہر گلی اور کوچے میں پھیلا چکے ہیں۔ دراصل یہ تمام افراد بشمول لکھاری اور دانشوران میڈیا اس بات سے انتہا کی حد تک بے خبر ہیں کہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والی اس افواج کے درمیان کتنے اعلیٰ قسم کےمسلکی روابط باہم موجود ہیں جس کا تصور عام شہری زندگی میں نہیں کیا جاسکتا ہے۔(راقم تحریر فقہ دیوبند سے تعلق رکھتا ہے اور افواج پاکستان میں اپنی سابقہ خدمات کو اس ملک کیلئے ایک معمولی نذرانہ سمجھتا ہے۔ جبکہ مسالک کی باہم رواداری کا سب سے بڑا عینی شاہد ہے)۔ جبکہ افواج پاکستان میں سب سے چھوٹی سطح پر موجود پلاٹون سے لیکر سب سے بڑی سطح جنرل ہیڈکوارٹر تک تقریبا ًتمام مسالک کے افراد اپنے اپنے فرائض اپنے مسلک سے مبرا ہوکر انجام دے رہے ہیں تو ان افراد کے پیٹ میں مروڑ کا اُٹھنا ایک لازمی سا عُنصر ہے ۔ یہ نام نہاد دانشور حضرات یقیناً اس بات سے مکمل لاعلم ہیں کہ جب کوئی جوان چاہے وہ افواج میں کمیشن لیکر آیا ،یاایک عام سپاہی کی حیثیت سے اپنی فوجی زندگی میں قدم رکھے انہیں روز اول سے جو بات سب سے پہلے ازبر کرائی جاتی ہے وہ اپنے ملک کی حفاظت کیلئے مذہب، و مسلک سے ماورا ہوکر اس مقدس زمین کیلیئے اپنی جان نذرانہ کے طور پیش کرنا ہی وہ اصل مقصد ہے۔ جس کیلئے انکی خدمات حاصل کی گئی ہیں اور اس سے بڑی کوئی سعادت نہیں ہوسکتی۔
ایک سپاہی ہو یا ایک سیکنڈ لیفٹیننٹ ٹریننگ کے شب و روز گزار کر اور ٹریننگ کی زندگی میں ہائی لیول کی موٹیویشن کے بعد جس لمحے وہ عملی فوجی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو یہ لمحہ اُسے اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ اسکا واحد مقصد اور نصب العین تمام مسالک سے ماورا ہوکر اس ملک کا دفاع اور اپنے مادر وطن کی مٹی کیلئے جام شہادت نوش کرنا ہے ۔نہ کہ مسلکی و فرقہ ورانہ ماحول کو فروغ دینا ۔کیونکہ مقصد شہادت ہر قسم کی مسلکی دیوار کو پہلے ہی ڈھا چکا ہوتا ہے۔ ویسے بھی افواج پاکستان ملک کا وہ واحد ادارہ ہے جہاں پر نظم و ضبط اپنی انتہا پر پہنچا ہوا ہے۔ ایک یونٹ کی کمانڈ کرنے والا لیفٹیننٹ کرنل ہو یا بریگیڈ کو کمانڈ کرنے والا بریگیڈیئر مسلکی ہتھیار کی تباہی و بربادی اور اسکے مضمرات سے وہ فوجی زندگی کے پہلے دن سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسی کوئی بھی صورتحال کسی بھی لیول پر برداشت نہیں کی جاتی ہےاور اسکے تدارک اور باہمی مسلکی رواداری کو فروغ دینا ہر ایک کمانڈنگ آفیسر اور بریگیڈ کمانڈر کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ترین زمہ داری سمجھی جاتی ہے۔
یہ پاک فوج ہی ہے جس میں ہر صبح کا آغاز مسجدوں میں باقاعدگی کے ساتھ نماز فجر کے ساتھ کیا جاتا ہے جبکہ مسجد میں ہر مسلک کے جوان موجود ہوتے ہیں اور سب اپنے اپنے مسلک پر عمل کرتے ہوئے اپنے دینی فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ ہر مذہبی تہوار پر باقاعدگی کے ساتھ اسکومنانے کے احکام جاری کیئے جاتے ہیں اور اس بات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے کہ ہر جوان اور آفیسر اپنے مسلک کے مطابق ان تہوار کو منائے۔ مثال کے طور پر مُحرم کے مہینے میں تمام اہل تشیع جوان اور افسران کیلئے ایک امام بارگاہ مخصوص کردی جاتی ہے جسکی سیکیورٹی فوج کی ذمہ داری ہوتی ہے اور تمام اہل تشیعی جوان و افسران اپنی عبادات کو اپنے مسلک کے مطابق انجام دیتے ہیں۔ نیز یکم محرم سے دس محرم اور اسکے بعد سیدالشہدا رضی اللہ عنہ کے چالیسویں تک یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اب قارئین اندازہ لگائیں کہ یہ احکامات ہر کوارٹرسے متعلقہ ڈیو ہیڈکوارٹر پھر بریگیڈ ہیڈکوارٹر سے ایک یونٹ اور یونٹ سے ایک کمپنی اور پلاٹون تک متعلقہ افراد پہنچائے جاتے ہیں۔ میرا ایک عاجزانہ مشورہ ان تمام نام نہاد لکھاری اوردانشور حضرات سے یہ ہے کہ اپنی زندگی میں سے کچھ دن ان جوانوں کے ساتھ رہ کر گزاریں تو ان پر حقیقت حال اور بھی واضح ہو جائیگی اور انکے باطل دلائل انشااللہ اپنی موت آپ مر جائیں گے۔

Facebook Comments

ایاز خان دہلوی
سچائی کی تلاش میں مباحثہ سے زیادہ مکالمہ زندگی کا ماحصل ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply