ڈشکری نہیں لشکری زبان۔۔۔۔۔ ندیم رزاق کھوہارا

کچھ عرصہ پہلے میں روزگار کے سلسلے میں رائیونڈ مانگا روڈ پر واقع ایک فیکٹری میں بطور اسمبلنگ سپروائزر تعینات تھا۔ ان ہی دنوں فیکٹری میں ایک نیا نیا ملازم بھرتی ہوا تھا۔ نام تو شاید ذیشان تھا لیکن سب لوگ اسے ڈشکرا ڈشکرا کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ عمر سولہ سال کے لگ بھگ ہو گی۔ لیکن کرتوت تیس والوں سے بھی اوپر کے تھے۔ ابتدائے عمر سے ہی خاصا تنومند اور قوی الجثہ لڑکا تھا۔ اور ہر وقت لیے دیے رہتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ شاید اس کی جسامت کے باعث ہی سب لوگ اسے ڈشکرا کے نام سے پکارتے ہیں۔ لیکن ایک روز ماتحت کام کرنے والی ورکنگ انچارج صفیہ سے پوچھا تو پتہ چلا کہ دراصل یہ کنیت کسی اور وجہ سے مشہور ہوئی ہے۔

صفیہ عمر کی چالیس بہاریں دیکھ چکی تھی۔ اور مسلسل کام کرتے کرتے اب اس کے بالوں میں چاندی اتر آئی تھی۔ اس لیے اپنے تجربے اور مہارت کی بناء پر پوری فیکٹری میں جانی جاتی تھی۔ میں نے ایک دن اس سے پوچھا کہ یہ جو لڑکا روز ہال سے سامان اٹھانے آتا ہے اسے تم لوگ ڈشکرا کیوں کہتے ہو۔ جواب میں اس نے جو کچھ بتایا وہ حیران کن ہی نہیں پریشان کن بھی تھا۔ اس نے اردگرد دیکھ کر رازداری سے کہا۔۔۔
“سر اب آپ کو کیا بتاؤں۔۔۔ یہ لڑکا بہت برے کردار کا مالک ہے۔ ہر وقت ہر کسی کے ساتھ فٹ ہو جاتا ہے۔ یہ مینیجر صاحب کے ساتھ بھی پورا ہے اور اپنے انچارج کے ساتھ بھی۔ اتنا تیز اور شاطر ہے کہ مصیبت بر آئے اور فیکٹری میں کسی نقصان کی تحقیق ہو تو جس کا پلڑا بھاری ہو اسی کے حق میں بیان دے دیتا ہے۔ اور تو اور ہمارے ہال کی لڑکیوں کو تاڑنے میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں۔ چھوٹی، بڑی، گوری، کالی، اچھی بری ہر ایک پر نظر رکھتا ہے۔ اور جو لفٹ کرا دے بس اسی کے پیچھے ہو جاتا ہے۔ نہ  کوئی خیال نہ  فکر، نہ  اصول نہ ضابطہ، بس بے تکے انداز سے جدھر کو جہاں منہ اٹھائے منہ مارتا پھرتا ہے اسی لیے لڑکیاں اور بڑی عمر کی عورتیں اسے ڈشکرا ڈشکرا کہہ کر پکارتی ہیں”

ڈشکرے کی یہ تشریح میرے لیے بالکل نئی تھی۔ اور یوں راسخ ہوئی کہ پھر بھلا نہ پایا۔ مطلب ڈشکرے کا عمومی اور یہ خصوصی مطلب دونوں کو اکٹھا کیا جائے تو معانی یہ بنے کہ ایسا شخص جس کو جو ملے بس ڈکارتا جائے۔ ہڑپ کرتا جائے۔ موٹا ہوتا جائے۔ بنا کسی ضابطے و اصول کے ہر کسی سے متاثر ہوتا پھرے۔ وغیرہ وغیرہ

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر یہ بحث چلی کہ اردو ایک لشکری زبان ہے تو میرے ذہن میں فوراً لفظ ڈشکرا ابھر آیا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ اردو میں زبان میں دیگر مختلف زبانوں کے بےشمار الفاظ شامل ہیں۔ اور یہ کہ اس زبان کی وسعت ایسی ہے کہ اس میں ہر زبان کا لفظ باآسانی سما سکتا ہے۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے لشکری قرار دے دیا جائے؟

یار لوگ تو لشکری کا مطلب یہاں تک بھی لیتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں مختلف ادوار میں مختلف حملہ آور آ کر حکومت کرتے رہے جن میں ترک، افغان، فارس اور عرب کے حکمران شامل ہیں۔ یہ لوگ جہاں برصغیر پر حربی لشکر کشی کرتے رہے وہیں اپنی زبانوں کو زبردستی رائج کرنے کی لسانیاتی لشکر کشی بھی جاری رکھی۔ یوں ترکی، افغانی، عربی و فارسی سمیت دیگر زبانوں کی لشکر کشی سے اردو وجود میں آئی۔ اسی لیے اسے اردو یعنی لشکری زبان قرار دیا گیا۔

ایسا کہتے وقت یہ نام نہاد محقق تحقیق کو اس طرح تروڑمروڑ کر پیش کرتے ہیں کہ اصلی حقائق مسخ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ لیکن یہ میرے اس مضمون کا مطمع نظر نہیں ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ اردو لشکری زبان ہے یا نہیں، یا اس میں دوسری زبانوں کی نفوذ پذیری کیا ہے۔۔۔ ہم وقتی طور پر یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ اردو ایک لشکری زبان ہے۔ لیکن کیا لشکری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس زبان کے اپنے کوئی قواعد و ضوابط نہیں؟ کوئی اصول و قواعد نہیں؟

حقیقت تو یہ ہے کہ اردو زبان اپنا ایک مقام، ذخیرہ الفاظ اور وسعت اظہار رکھتی ہے۔ اس کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں جنہیں ہم اردو گرائمر کی صورت میں پڑھتے آئے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس میں دیگر زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز ہرگز نہیں ہے کہ ان الفاظ کو جیسے چاہیں اردو میں استعمال کریں اور کوئی پوچھنے والا نہ  ہو۔

مثال کے طور پر واحد سے جمع کے قواعد کو ہی لیجیے۔۔۔ ہم انگریزی لفظ گلاس کو تو اردو میں استعمال کر سکتے ہیں۔ میرے خیال سے یہ ایک عمومی مستعمل لفظ ہے لیکن گلاس کی جمع گلاسز کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا اردو قواعد کے مطابق کسی لفظ کو واحد سے جمع میں بدلنے کے لیے آخر میں ایس/زیڈ یا یوں کہیے ز لگانے کی اجازت ہے۔

ایسے بے شمار انگریزی الفاظ ہیں جو ہم روزمرہ گفتگو میں استعمال کرتے ہوئے لکھتے یا بولتے ہیں لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم ان الفاظ کی واحد سے جمع یا مذکر مونث وغیرہ بھی انگریزی کے حساب سے استعمال کرتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ افعال بیان کرتے وقت ہم اردو صیغہ کو بالکل بھی مدنظر نہیں رکھتے اور فعل حال سے ماضی یا مستقبل وغیرہ میں جانے کے لیے بعینہ انگریزی زمانوں کو استعمال کرتے ہیں جو کہ اردو زبان کے قتل کے مترادف ہے۔ مثلاً ایک صاحب اپنے مضمون میں جملہ لکھتے ہیں کہ
“اس سلوک پر وہ شاکڈ تھا”
کوئی سمجھائے کہ اردو میں اچھے بھلے “متحیر، دنگ” وغیرہ جیسے الفاظ کے باوجود لفظ شاک استعمال کرنا اتنا ہی ضروری ہے تو اردو قواعد کی ٹانگیں تو نہ توڑیں۔ اردو کا وہ کون سا قاعدہ جس کے تحت فعل ماضی کے “ڈ” کا اضافہ کیا جاتا ہے؟

ایسے لوگوں کو ٹوکا جائے یا اصلاح کی کوشش کی جائے تو تنگ نظری اور روایت پسندی کا طعنہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اردو تو لشکری زبان ہے۔ اس میں انگریزی کے الفاظ سمونے میں مضائقہ نہیں۔ بھائی مان لیا لشکری زبان ہے لیکن اسے ڈشکری نا بنائیں کہ جیسے جس طرح جو جی چاہے تروڑ مروڑ کے الفاظ شامل کرتے رہیں۔ کوئی قاعدے کلیے کا خیال نہ  رکھا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خوف خدا کیجیے۔۔۔۔ زبان کی ہئیت کو نہ بدلیں۔ قواعد و ضوابط اور گرامر کا خیال رکھیں۔
نوٹ: جن احباب کو لفظ ڈشکرے کا استعمال برا لگا ہو۔ ان سے معذرت، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اردو کی اپنی ایک شناخت ہے۔ اس لیے جدت پسندی کی آڑ میں اسے مسخ نہ کیا جائے۔ انگریزی الفاظ بھلے استعمال کیجیے لیکن اردو اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے۔
گر ترے دل میں اتر جائے میری بات۔۔

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply