• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نہادزندگی میں ابتدا لا، انتہا الا-پیام موت ہے جب لا ہوا الا سے بیگانہ

نہادزندگی میں ابتدا لا، انتہا الا-پیام موت ہے جب لا ہوا الا سے بیگانہ

عبداللہ اٹھارہ انیس سال کا ایک نوجوان جو کہ انٹر پارٹ ون کا طالب علم ہے۔ درمیانہ قد، سمارٹ جسم اور چہرے پر گہری بھنویں اس کے چہرے پر بہت بھلی لگتیں۔ عبداللہ کے بال اکثر بکھرے رہتے اور وہ اپنے ہی خیالات میں گم رہتا۔ اس نے بہت لا ابالی طبیعت پائی تھی۔ وہ کوئی بھی کام تسلسل سے کرنے کا عادی نہیں تھا۔ کسی کام کے پیچھے پڑ جاتا تو اڑتالیس اڑتالیس گھنٹے بھی مسلسل اسے بغیر سوئے کر لیتا۔ طبیعت میں نرمی اور شائستگی اتنی کہ جو بھی اس سے ملتا اس کا گرویدہ ھوجاتا۔ اتنی نا قابل اعتبار عادات کا مالک کہ ہمیشہ گھر والوں اور دوستوں کی تنقید کا حدف رہتا۔ محبتیں اور ہمدردیاں سمیٹنے میں بھی اسکا کوئی ثانی نہیں تھا۔ خیالات ایسے کہ کسی بھی طبقے کا فرد نہ لگے۔ دوسروں کے درمیان موجود ھوتے ہوئے اتنا گم کہ خود سے بھی بیگانہ۔
عبداللہ شام کے وقت اکثر سوجاتا اور اس عادت کی وجہ سے گھر والوں سے کئی دفعہ ڈانٹ بھی کھا چکا تھا۔ وہ اکثر کالج کے بعد ٹیوشن پڑھنے جاتا اور شام کے وقت واپس آتا اور کھانا کھا کر سو جاتا۔ آج کل نہ ہی تو وہ کالج جا رہا تھا اور نہ ہی ٹیوشن پڑھنے کیونکہ انٹر بورڈ کے امتحانات ہونے والے تھے۔ لیکن آج بھی عبداللہ حسب معمول عصر کے بعد سوگیا۔ جب عبداللہ کی آنکھ کھلی اور اپنے کمرے سے باہر آ کر دیکھا تو سب گھر والے سو رہے تھے۔ عبداللہ کی نظر جیسے ہی سامنے والی دیوار پر لگی ہوئی وال کلاک پر پڑی وہ فوری الٹے قدموں واپس پلٹا اور الماری میں سے کتابیں نکالنے لگا۔ اس وقت رات کے دو بج رہے تھے اور دو دن بعد اسکا بورڈ کا پہلا امتحان تھا اور وہ بھی ریاضی کا۔ ریاضی عبداللہ کا پسندیدہ مضمون تھا اور عبداللہ ریاضی میں ویسے بھی اچھا تھا، اس کے ایک استاد اسے اکثر کہتے کہ تم انجینئر بننے کی بجائے ریاضی دان بننا۔
عبداللہ نے الماری سے چند کتابیں اور ایک رجسٹر نکال کر بستر پر پھینکا اور منہ دھونے کے لیئے واش روم کی طرف چل دیا۔ اس نے جلدی جلدی پانی کے کچھ چھینٹے اپنے چہرے پر مارے اور رومال سے ہاتھ منہ صاف کر کے اپنے بستر پر جا بیٹھا۔ عبداللہ امتحانات کے دنوں میں ہی صرف توجہ سے پڑھائی کرتا۔ اس نے ریاضی کی کتاب کھولی اور ساتھ ہی گیس پیپرز کھول لیئے۔ عبداللہ نے گیس پیپرز سے پچھلے پانچ سالوں کے امتحانات میں پوچھے گئے سوالات پر نشان لگانا شروع کردیا۔ جو سوال جتنی دفع اسے گیس پیپرز میں سے ملتا وہ اس پر اتنی دفع ہی نشان لگا لیتا تاکہ اسے دیکھ کر ہی اندازہ ہو سکے کہ کونسا سوال گیس پیپرز کے مطابق زیادہ اہم ہے۔ گیس پیپرز سے ملے تمام سوالات پر نشانات لگانے کے بعد عبداللہ نے ان سوالات کو ایک ایک کر کے حل کرنا شروع کیا۔
عبداللہ کی ایک عادت تھی کہ وہ جب ایک ہی جیسے سوالات حل کرتا تو انکا ایک کلیہ بنا لیتا جو کہ روایتی کلیے سے بلکل مختلف ھوتا اور پھر اس کلیے کو یاد کر لیتا۔ عبداللہ کے دوست اس کے بنائے ہوئے پیٹرن یا کلیے کو اکثر عبداللہ کا دیسی ٹوٹکا کہتے اور عبداللہ کے دیسی ٹوٹکوں سے مسفید بھی ہوتے۔ عبداللہ ریاضی میں اپنے ان دیسی ٹوٹکوں کی وجہ سے کلاس فیلوز میں کافی مشہور تھا۔ آج بھی عبداللہ یہی کر رہا تھا۔ وہ نشان زدہ سوالات کو حل کرتا اور ایک جیسے سوالات کا کلیہ بناتا اور پھر کچھ مزید سوالات پر اپنے اس کلیے کو اپلائی کرتا۔ اس طرح عبداللہ تمام سوالات کو حل کرنے کی بچائے کچھ سوالات ہی حل کرتا تاکہ زیادہ سے زیادہ تیاری کر سکے۔
عبداللہ نے ابھی ایک ہی سبق کے منتخب شدہ سوالات حل کیئے تھے کہ اس نے تین نکات پر مشتمل ایک اپنا کلیہ بنایا۔
۱۔ مفروضہ قائم کرو۔
۲۔ موجودہ قوانین پر اپنے مفروضے کو پرکھو۔
۳۔ درست ثابت نہ ہو تو مان جاوؑ کہ مفروضہ غلط تھا۔
دراصل اس نے method of contradiction کا اپنی سہولت کے لیئے ایک کلیہ اخذ کر لیا۔ ابھی وہ اپنے بنائے ہوئے کلیے کے مطابق پہلا سوال ہی حل کر رہا تھا کہ اس کا قلم رک گیا اور اس کا دماغ اور ہی خیالوں میں گم ہوگیا۔ وہ سوچنے لگا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی تو یہی کیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی تو مفروضہ قائم کیا تھا کہ میرا رب وہ ھو گا جس کو زوال نہیں۔ سورج کی بلندی اور تپش دیکھی تو کہا یہ میرا رب ہے لیکن جب شام کو اسے ڈھلتے دیکھا تو کہا کہ نہیں یہ میرا رب نہیں ھو سکتا کیونکہ یہ تو زوال پذیر ہے۔ عبداللہ نے اپنے ذہن میں ایک جھٹکا محسوس کیا اور پھر خیالوں کی دنیا میں گم ھوگیا۔ اتنا گم کہ اسے ھوش ہی نہیں رہا کہ وہ امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ سمندر کی موجوں کی طرح خیالات اس کے دماغ میں امڈ رہے تھے اور اس کے لب بڑبڑا رہے تھے۔
ہمارے معاشرے میں یہ سیکولر اور نام نہاد دانشوروں کا بھی ایک عجیب ٹولہ پیدا ھوگیا ہے جس کو سول سوسائٹی کے نام سے لیبل کیا جاتا ہے۔ جنکا نہ کوئی دین ہے نہ ایمان اور نہ انسانیت۔ ایک طرف حقوق کے علمبردار اور دوسری طرف حقوق سلب کرنے میں ہٹلر سے بھی جابر۔ ایک طرف آزادی رائے کے شیدا اور دوسری طرف اتنے ہی کٹر جتنا کہ وہ مولوی جس پر تنقید انکا فرض اولین ہے۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ یہ کلیہ method of contradiction تو آفاقی کلیہ لگتا ہے پھر ایک طبقہ کی نظر میں جدید علوم کفر کی سند اور دوسرے طبقے کے ہاں مذہبی تعلیمات علم کا درجہ کیوں نہیں رکھتیں۔ سہی کہتے ہیں پروفیسر احمد رفیق اختر کہ عقل جہاں سوچنا بند کردے وہیں ایک بت تعمیر ھو جاتا ہے۔ مولوی حضرات نے بھی اپنا ایک بت کدہ تعمیر کیا ہوا ہے جس میں جدید علوم انکے بنائے ہوئے مندر کو پلید کرتا ہے اور ایک عام گنہگار شخص انکی نطر میں ملیچھ ہے اور دوسرے مکتبہ فکر کا شخص کافر ۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ کلمے کا پہلا حصہ بھی تویہی method of contradiction ہے۔ لا، مفروضہ قائم کرو کہ کوئی رب نہیں ہے۔ اب اس مفروضے پر غور کرو، موجودہ قوانین پر پرکھو۔ غور کرو تو معلوم ھوگا کہ ، نہیں ہے، ایک رب ہے۔ ایک ہستی ہے جس کے کن کہنے پر سب ھوتا ہے۔ ایک ہی ہے دو ھوتے تو فساد ہوتا۔
نہاد زندگی میں ابتدا لا، انتہا الا
پیام موت ہے جب لا ہوا الا سے بیگانہ
ہاں یہ نام نہاد دانشور طبقہ نے بھی بت تعمیر کیا ہے انکی عقل بھی لا پر آکر رک گئی ہے۔ اس کے آگے انہوں نے سوچا ہی نہیں۔ method of contradiction کو انہوں نے بھی پورا اپلائی نہیں کیا ہوگا جبھی تو بت تعمیر ھوگیا۔ لا پر ہی رک گئے۔ سوچتے تو ضرور پاتے۔ سوچتے تو تب ہی۔ انہوں نے بھی نہیں سوچا۔ نہیں سوچا جبھی تو تنقیدی مزاج ہے۔ کتنے بیوقوف ہیں یہ اپنے ایجاد کردہ علم کے مطابق بھی نہیں سوچتے۔ گیلیلیو کہے کہ ارسطوغلط تھا تو گیلیلیو کو مانتے ہیں اور ساتھ میں ارسطو کو بھی مفکر مانتے ہیں۔ مانتے ہیں کہ ارسطو کے مقابلے میں گیلیلو درست تھا مگر ارسطو کی تعلیمات کا رد نہیں کرتے انکو علمی کاوش آج بھی گردانتے ہیں۔ مولوی طبقہ سے علمی غلطی ہو جائے کہ سپیکر حرام ہے تو طعنہ اور طشنیع شروع ھوتی ہے کہ جب خود ٹی وی پر آتے ہیں تو تصویر اور سپیکر حلال ورنہ حرام۔ کیوں انکی غلطی کو علمی غلطی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ کیوں مذہبی تعلیمات کو علم کی شاخ تصور نہیں کیا جاتا۔ کیا یہ بھی اتنے ہی fundamentalist ہیں۔ ہاں یہاں ہر کوئی fundamentalist ہے اپنی سوچ اور فکر کا fundamentalist جس میں دوسرے کو اختلاف کا حق نہیں۔
عبداللہ اپنی انہیں سوچوں میں گم تھا اور خود سے ہی سوال و جواب میں مگھن تھا کہ فجر کی آذان سن کر چونکا۔ اور اقبال کی نظم گنگناتے ہوئے مسجد کی طرف چل پڑا
خودی کا سرِ نہاں لا الہٰ الا اللہ
خودی ہے تیغ، فساں لا الہٰ الا اللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الہٰ الا اللہ
کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا
فریبِ سود و زیاں، لا الہٰ الا اللہ
یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں، لا الہٰ الا اللہ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زُناری
نہ ہے زماں نہ مکاں، لا الہٰ الا اللہ
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الہٰ الا اللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں، لا الہٰ الا اللہ

Facebook Comments

محمد رضوان
پیشے کے لحاظ سے سافٹ وئیر انجینئیر ہوں اور علم و ہنر کے موتیوں کا متلاشی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply