اقبال کے فلسفہء عشق پر خراج

Advertisements
julia rana solicitors

حکیم الامت علامہ محمد اقبال کا جو مقام و مرتبہ ہے وہ کسی تعریف یا تعارف کا محتاج نہیں ان کے حالات زندگی کے متعلق بھی ہم سبھی جانتے ہیں۔۔ہر مہذب قوم زندگی اسکے رموز و اقاف اور جملہ امور اور کائنات کے عقدہ ہائے سربستہ کو حل کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتی ہے،اور اس کوشش کانتیجہ چند خیالات کا مجموعہ ہوتا ہے جو قوموں کا فلسفہ کہلاتے ہیں،بات زیست کی ہو تو روح ،عقل اور اجسام کے گرد ہی مباحثے پهیلتے اور سکڑتے ہیں.اسی روش اور سلسلے میں ہی ایک دراز قامت دو عطاوں عشق اور عقل کی تقابلی اور باہم متصل حیثیتوں کو کلام اقبال رح کے تناظر میں جاننے کی ادنی ٰسعی ہے ۔
اقبال اعلیٰ تعلیم یافتہ مفکر جنہوں نے امت کی بیماریوں کی بخوبی تشخیص کی اور مختلف فلسفہء ہائے تفکر پیش کئے ۔۔خودی کا فلسفہ جو فرد کی شخصی تعمیر میں ایک تراش خراش کے مصداق ہے ۔۔اقبال کا فلسفہ عشق بے حد منفرد ہے ۔۔۔وہ فلسفہ پر دسترس رکھنے کے باوجود عقل کی اجارہ داری کو متعدد مواقع پر چیلنج کرتے ہیں اور دل کو عشق کا رہرو منزل بنانے ہر زور دیتے ہیں ۔۔۔۔۔اقبال نے فلسفہ تک پڑھا ۔۔۔۔اور عقل و دانش کی گھتیاں بھی سلجھائی ہیں ۔۔۔مگر جب عشق نے اس سادہ منش انسان کو اپنی زلف گرہ گیر کا اسیر بنا دیا تو اقبال کا اقبال بلند ہوا ۔۔۔
کیا ہے یہ عشق کہ ایک مرد دانا کو جنوں سے آشنا کر دیا گیا ۔ہندوستان سے اٹھا کر قونیہ کے امام عشق سے ملا دیا گیا.اور یون عشق عطر پہنا کر جوں مشک و عنبر مہکا دیا گیا ،اور شمس تبریز کی نظر کے اسیر مولانا رومی کو شہر عشق کا راستہ دکھا دیا ۔وہ شہر عشق جہاں قبیلہء عشق سبز گنبد کو سلام و صلوة و عشق پیش کرتا ہے ۔۔۔
شاعری کو تعلیم و تربیت کے ضمن میں ۔۔۔۔۔۔مستند حوالہ نہیں گردانا گیا ہے ۔۔۔اس کا مقام علمی بنیاد ہر سائنسی فکر سے متصادم ہے ۔۔منطق اور فلسفہ کے بالمقابل ایک تغیراتی اظہار بیان ہے ۔۔۔تاہم یہ ایک ذریعہء اظہار ضرور ہے ۔۔۔احساسات کا ۔۔۔۔۔جذبات کا ۔۔۔۔۔دل پر بیتی ہر گھات کا ۔۔۔۔۔۔اسی طرح دل سے نکلی ہر بات کا مگر جب شاعری ہو اقبال رح کی ۔۔۔۔۔یا ان کے مرشد ۔۔۔مولانا جلال الدین رومی رح کی ۔۔۔۔تو کلام کو بھی خود پر ناز ہونے لگتا ہے،
دل ۔۔دماغ ۔۔۔۔وجدان ۔۔۔یا باطنی شعور ۔۔۔جذب و جنوں شوق آرزو سوز سازسے نکلا مستی اور سر مستی کا تال میل جس قدر عشق کے سروں میں ڈھال کر ایک نغمہء جاں فزا بنا دیا اسی کے مضراب نے مزید کتنے ہی دلوں کو ایک نِئی جستجو سے ہم آھنگ کر دیا ۔۔۔کہاں سے سفر آغاز ہوا اور کہاں تک ہے ۔۔لامتناہی سفر ۔۔۔۔۔کون جانے ۔۔۔عشق کا سفر ہے کیسا سفر ۔۔۔ یہ جوعین ہے یہ جو شین ہے یہ جو قاف ہے ۔۔یہ جو عشق کے ساز میں بجتے سر ہیں ۔۔۔سروں کا جو کھیل ہے ۔۔۔۔جو کسی دل کو رکھتا رقصاں ہے ۔۔۔۔ مجاز سے حقیقت ۔۔۔۔ سراب سے حقیقت ۔۔۔۔۔ خواب سے حقیقت ۔۔۔۔۔یا واپس سراب تک ۔۔۔۔۔رقص جاں کے الاپ ہیں جہاں سے جہاں تک ا قبال کا ماننا ہے کہ یہ سب سوز وساز لگن کے بعد عطا کا انعام ہےاقبال کا کہنا ہے کہ عشق ہی کائنات کی وجہ تشکیل ہے اور عشق ہی بے بال وپر کائینات کی رفعتوں اور گہرائیوں تک کی پرواز عطا کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔
من بندۂ آزادم عشق است امام من
عشق است امام من عقل است غلام من
ہنگامۂ این محفل از گردش جام من
این کوکب شام من این ماہ تمام من
جان در عدم آسودۂ بی ذوق تمنا بود
مستانہ نوا ہا زد در حلقہ دام من
ای عالم رنگ و بو این صحبت ما تا چند
مرگست دوام تو عشق است دوام من
پیدا بہ ضمیرم او پنہان بہ ضمیرم او
این است مقام او دریاب مقام من
اقبال کے مطابق ،جہاں عقل سے کهوج، وہاں محبت اسکی عرفہ تلاش ہے،جو بعد ازاں عقل کو کہیں لایعنی تو کہیں سربستہ تہوں کے پار دیکهنے والی عمق النظری عطا کر دیتی ہے،
عقل سے اضطراب ہے.دیگر کے ساتھ ایک مضطرب نس محبت کی،عشق حقیقی کی منازل پر معرفت کا درجہ ،جو تیقن کے ساتھ عقل کی کمال جمالیت ہے کو پہنچ جاتا ہے،جو تسلیم و رضا پر جا منتہی ہوا. ۔۔۔اس سفر میں کوئی یہ کہہ کہ ;محبت ایک پل ہے تمہارے اور ہر شے کے بیچ;رومی ہوا،کوئی محبت کی عرفہ صفت اطاعت پر ابراہیم ہوا،کوئی حب دین میں ہاشمی خانوادے کا سر پیش کر کے حسین کہلایا،تو کوئی حب یار میں یار غار کہلایا تو کوئی ابن خلف کی ادنی ملکیت سے سیدنا بلال ہو گیا. اور کہیں عشق مصطفوی صلی اللہ علیہ و الہ کے طفیل اقبال کا اقبال بلند ہوا ۔ہر ایک کہ لگن ، جستجو اور سوز کے مطابق مالک کی عطا اور منزلوں کا فہم و ادراک انکو لازوال بنا گیا.محبت،زندگیوں کے بیانیئے بدلتی،کهونے اور پانے کے بیچ کی راحت و ستم___محبوب کی ہستی کی دید ،مدهرترنم آواز،چشم ما روشن ،ادا و خم،ابتسام،وصل کی بیقراری ،ہجر سے خوف جان کنی،عشق کی منازل کو اسکا راہی ہی جانے____
جو جس قدر کندن ہو اسی قدر بالتوفیق و مشیت درجہ پایا،، بین نوعین ،ہو مجازی یا حقیقی.۔۔۔۔کہ من میں آگن لگے تو جانے حدت عشق،دل کی گداز بستی میں هو چشم ترتو جانے ،،کسک،درد اور احساس کی.۔۔۔۔۔۔۔
لکھا تھا عرش کے پائے پہ اک اکسیر کا نسخہ
چھپاتے پھرتے تھے فرشتے جس کو چشم روح آدم سے
نگاہیں تاک میں رہتی تھیں لیکن کیمیاء گر کی
وہ اس نسخے کو بڑھکر جانتا تھا اسم اعظم سے
اقبال
چاہت،الفت ،محبت وه خدائی صفت ہے جو ہر اعلیٰ اور عرفہ صفات کو خود میں سموئےہوئے ہے.عرش والے نے محبت سے شغف کیا،کائنات محبت تشکیل کر ڈالی۔۔۔.
محبت کے طلسم کو اپنی تخلیق آدم کی سرشت میں پهونک ڈالا،۔۔۔۔۔۔اسکی دوزندگیوں تک میں اسکو ضابطہ حیات کا درجہ دےڈالا ۔۔۔۔۔۔محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر خود سلام بھیجا اور ملائکہ درودوسلام میں مشغول ہیں ۔۔۔۔امر قرآن بنا ڈالا.۔۔۔۔۔
اور اسی محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی آه و بکا ،امتی امتی ۔۔۔۔کیا خوب تعارف ہے اس محبت کا، محبت،الفت ،چاہت__وه غیر متزلزل فولادی ہر قانون شکن قوت جو اپنا قانون خود بنائے.یہ مجازی ہو یا حقیقی ،یہ جاوید ہے اسکو دوام ہے،یہ اک سحر و محسور ہے ،اک آرزو ،اک امنگ ہے ۔۔۔ اک ناقابل شکست اراده و تحریک ہے ،اک منزل ،سوز و ساز ہے ۔ اک نغمہ ہے جو زندگی میں حلاوت بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔اک وجہ حیات،اک جوہر حیات ۔۔۔۔۔تن و من کش بهی اک حق و باطل میں خط فاصل بهی ،اور ایک خاتمہ حیات کے جذبے تک سے سرشار جوہر مقبول رکهنے والی طاقت بهی ہے یہ جب تک حیات انسانی باقی ہے محبت قائم ہے،جب تک قلم کی روشنائی ۔

Facebook Comments

حبیبہ طلعت
تجزیہ نگار، نقاد اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply