امریکی انتخابات کے غیر متوقع نتائج 

مجھے اعتراف ہے کہ بریگزیٹ کی طرح امریکی انتخابات کے نتائج بھی میرے لئے غیر متوقع تھے۔ اس دن کی طرح آج بھی جب صبح اٹھ کے خبریں چیک کیں تو انہونی ہوچکی تھی دونوں دفعہ اندر ہی اندر ہنسے بغیر نہ رہ سکا۔ آخر کیا بات مشترک ہے دونوں نتائج میں؟ ایک ہی چیز نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ مغرب کے عوام بھی عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈا کو مسترد کرنے پہ تل گئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلہ میں ہیلری واضح طور پہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کا گھوڑا تھی اس نظریہ کو تقویت اس مشاہدہ سے ملتی ہے کہ جس طرح امریکی میڈیا یک زبان ہوکے ٹرمپ پہ ٹوٹ پڑا۔ ایف بی آئی کا ہیلری کی ای میلز پہ تحقیقات کا اعلان اور عجلت میں ہیلری کو بری الذمہ قرار دینا اس شک کو تقویت دے گیا کہ کسی بعد از کامیابی مپیچمنٹ کا دروازہ بند کرنے کی کوشش ہے۔ 
یہ سوال کہ آخر ٹرمپ جیسے بظاہر کمزور امیدوار کے مقابلے میں ہیلری کیوں شکست سے دو چار ہوئی؟ کا جواب امریکی زنگ آلود پٹی میں پوشیدہ ہے۔ مشی گن سے وسکونسن ، آئیووا تک پھیلی یہ مڈ ویسٹ کی پٹی امریکہ کی بھاری صنعت کا مرکز تھی یہ تمام صنعتیں چین یا دور دراز ممالک میں منتقل ہوگئیں تھیں جہاں آج سابقہ کارخانوں کی مشینری پڑےپڑے زنگ آلود ہورہی ہے اور ڈیٹرائیٹ جیسے شہر کی بلدیہ دیوالیہ پیٹشن دائر کرنے پہ مجبور، ڈیٹرائیٹ جیسا امریکی آٹوموبائیل کا مرکز شہر امریکی ویسٹرن فلموں کے کسی گھوسٹ ٹاؤن کا منظر پیش کرتا ہے۔ 
          انیسویں صدی میں فرنٹیئر کی دریافت کے بعد امریکی مارکس کے اس نظریہ کہ سرمایہ داری بالآخر اس معاشرتی بنیاد کو ہی چاٹ جاتی ہے جس کی بنا پہ جنم لیتی ہے، سے خود کو بالاتر اور محفوظ سمجھتے آئے۔ ایک فرنٹیئر کے بعد دوسرے کی دریافت کے بعد یہ احساس ان میں پختہ تھا کہ باقی دنیا پہ لاگو ہونیوالے اصول امریکہ پہ لاگو نہیں ہوتے۔    لیکن اب لگتا ہے کہ عام امریکی میں یہ احساس دم توڑ چکا ہے جس کی نشاندہی برنی سانڈرس کی آمد سے بھی ہوتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کو برطانوی سلطنت عملاً ورثہ میں ملی تو امریکی سرمایہ دار کو سرمایہ کاری کے لئے عالمی میدان مل گیا۔ عام امریکی پہ اس کے اثرات رفتہ رفتہ 90 کی دہائی سے ہونا شروع ہوگئے جب امریکی صنعت نے چین یا ایشیا کے دوسرے ممالک کی طرف رخ کیا ،سستی لیبر سے فائدہ اٹھانے کے لئے۔ اس وقت یہ احساس موجود تھا کہ امریکیوں کے لئے نیا فرنٹیئر سافٹ ویئر اور ڈیزائننگ کا موجود ہے۔لیکن اس کے فوائد سرمایہ دار طبقہ اور اعلی ٰتعلیم یافتہ کلاس تک محدود رہے، عام امریکی ملازمتوں سے  محروم ہوتا رہا اور اس کے لئے روزگار کے مواقع سمٹتے رہے۔ 
لگتا ہے کہ جس چیز نے ٹرمپ کو کامیابی دی وہ یہی وعدہ تھا کہ وہ ملازمتیں امریکہ میں واپس لائے گا، امریکی فوجوں کو واپس امریکہ لائے گا اور امیگرینٹس پہ پابندیاں عائد کرے گا۔ یہ خالصتاً امریکی ایجنڈا تھا وہ یہ واضح کرنے میں کامیاب رہا کہ اس کا کوئی عالمی ایجنڈا نہیں۔ یہی چیز اسے بریگزٹ سے مماثلت دیتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب حکومت میں آکر ٹرمپ اپنے وعدوں کو کس حد تک پورا کرسکتا ہے؟ جہاں تک اندرونی ایجنڈے کا تعلق ہے امریکی اسٹیبلشمنٹ اس سے بے نیاز رہے گی لیکن اس پہ ٹرمپ کسی شاؤنسٹ کے انداز میں عمل اس لئے نہیں کرسکتا کہ آئین اور ممکنہ طور پہ سپریم کورٹ اس کے راستہ میں حائل ہوگی لہذا عملاً یہ ایجنڈا میانہ روی سے ہی آگے بڑھایا جا سکے گا۔ البتہ عالمی سطح پہ اس کا ایجنڈا اسٹیبلشمنٹ اور طاقتور سرمایہ دار حلقوں سے ضرور ٹکرائے گا۔ اور یہی وہ جگہ ہےجہاں سے ٹرمپ اپنے وعدے پورے کرسکتا ہے مثلاً ملازمتیں امریکہ میں واپس لانا۔ 
اس ضمن میں اس نے جو پابندیاں عائد کیں اس پہ سرمایہ دار حلقے ضرور مزاحمت کریں گے سرمایہ دار کے لئے سستی لیبر کی خواہش پہ قابو پانا بہت مشکل ہے۔ جہاں تک فوجوں کو واپس بلانے کا تعلق ہے اس میں سرمایہ دار طبقہ اور پینٹاگون دونوں ہی مزاحم ہونگے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ کسی نئی جنگ کا آغاز اب امریکہ کے لئے بہت زیادہ مشکل ہوگا۔ 
جہاں تک اسلحہ کی صنعت کا تعلق ہے اس میں اسے فروخت پہ قطعاً اعتراض نہ ہوگا بلکہ حمایت کرے گا۔
امریکی پالیسیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی کی توقع فضول ہے جس حد تک تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے وہ یہی ہے کہ امریکہ خود اپنی فوجیں کسی نئے مقام پہ بھیجنے سے گریز کرے گا۔ 
   ہمارے پڑوسی ملک میں ٹرمپ کی فتح پہ جشن کا سا سماں ہے لیکن بات یہ ہے کہ وہ ملازمتیں جو فوری اور آسانی سے واپس لائی جا سکتی ہیں ، ٹیلی فون ہیلپ لائن کی ملازمتیں ہیں جو تقریباً تمام ہی پڑوسی ملک کو برآمد کی گئی تھیں۔ تب کیا ہوگا؟ شائد اسلحہ کی فروخت کے بدلے کوئی ڈیل ہوجائے؟ ممکنہ طور پہ یہی نظر آتا ہے۔ بہرحال اگلے سال سے یہ سب کچھ عملی طور پہ ہمارے سامنے آنا شروع ہوجائے گا۔ 

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply