سندھ کی سیاست اور مہاجر فیکٹر۔۔۔ایس ایم عابدی

الیکشن کے قریب آتے ہی سندھ میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں۔ لیاقت آباد کراچی میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے جلسہ عام سے سندھ کی سیاست میں ایک خاص قسم کی ہلچل مچی ہوئی ہے اور فوراً ہی لیاقت آباد میں ایم کیو ایم پاکستان کے جلسے کے بعد پیپلز پارٹی پر بھرپور لفظی گولہ باری کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے، دونوں جلسوں میں ایک بار پھر مہاجر فیکٹر کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سندھی اور مہاجر کے نعرہ کو کیش کرانے کی مذموم جسارت کی گئی ہے۔ کراچی سمیت شہری علاقوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اگر سندھ میں سیاسی جماعتوں نے قومی بصیرت کا ثبوت نہ دیا تو خدا نہ کرے کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں ایک بار پھر لسانی عصبیت کی آگ بھڑک جائے گی۔ لیاقت آباد میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے جلسے کے بعد اور اس جلسے میں ایم کیو ایم پاکستان اور میئر کراچی پر تنقید کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے دونوں دھڑے فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی کے درمیان جو فاصلہ پیدا ہوگیا تھا، وہ فاصلہ اچانک سمٹ گیا ہے، دونوں گروپوں نے گذشتہ دنوں مل کر لیاقت آباد میں جلسہ کیا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماوں فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی، کراچی کے میئر وسیم اختر اور دیگر رہنماوں نے کھل کر پیپلز پارٹی، بلاول بھٹو، آصف علی زرداری اور وزیراعلٰی سندھ سید مراد علی شاہ پر سنگین الزامات بھی لگائے۔

ایم کیو ایم پاکستان کا یہ جلسہ کامیاب تھا یا نہیں، عوام کی تعداد کتنی تھی، میرے نزدیک یہ اہم نہیں ہے۔ میرے لئے تو فکر کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی لڑائی میں سندھ کی سیاست خصوصاً کراچی اور شہری علاقوں میں ایک بار پھر خطرہ پیدا ہو چلا ہے کہ سندھ کی سیاست میں لسانی عصبیت کا عنصر شامل ہونے جا رہا ہے، اس کی جھلک اندرون سندھ میں دکھائی دینے لگی ہے۔ یاد رہے کہ کراچی اور شہری علاقوں سکھر، حیدرآباد، نواب شاہ، ٹنڈو اللہ یار، میرپورخاص سمیت شہری علاقوں میں اردو بولنے والوں کی اکثریت کا ووٹ بینک ہے۔ کچھ وقت قبل ایم کیو ایم اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت تھی مگر آج اردو بولنے والوں کا ووٹ بینک تقسیم ہوچکا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان دو گروپوں میں تقسیم ہے۔ مصطفٰی کمال کی پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم حقیقی بھی اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدار ہے، مگر اس حقیقت سے آج کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اردو بولنے والوں کا ووٹ تقسیم ہے اور اسی تقسیم سے پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ نواز، ایم ایم اے، اے این پی اور دیگر سیاسی جماعتیں بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں، سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایم ایم اے کراچی کی سیاست میں خاموش سرپرائز دے سکتی ہے۔ ایک وقت میں کراچی کی سیاست میں جماعت اسلامی کی مضبوط گرفت تھی اور جماعت اسلامی کے ایم ایم اے کا حصہ ہونے سے ایم ایم اے کو کافی فوائد کی توقع ہے۔

کراچی میں بظاہر تو اس وقت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں رسہ کشی جاری ہے، مگر ایم ایم اے، مسلم لیگ نواز، اے این پی، پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم حقیقی نے بھی کمر کس لی ہے اور بھرپور طور پر میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آٹھ مئی کو مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف سندھ کے دورے پر آرہے ہیں، وہ سندھ میں ایک بڑے جلسے عام سے خطاب کریں گے۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے بارہ مئی کو گلشن اقبال کراچی میں ایک بڑے جلسے کا اعلان کیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ کراچی کی انتظامیہ گلشن اقبال میں کس جماعت کو جلسے عام کی اجازت دیتی ہے۔ کراچی سمیت پاکستان اور سندھ کی اکثریت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر میدان میں آنا چاہیئے، لیکن پوائنٹ اسکورنگ کرنے کے بجائے قومی ایشوز کی سیاست کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ سیاسی جماعتیں قومی بصیرت کا ثبوت دیں اور الیکشن میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انتخاب کا فیصلہ عوام کے ووٹ پر چھوڑ دیا جائے۔ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے جس کا انتخاب کریں، وہ سب کے لئے قابل قبول ہوگا اور یہی وہ بہتر کام ہے، جس سے سندھ کی ہمدردیاں مہاجر کی بجائے پاکستانی شناخت کے نعرے کی بنیاد پر حاصل کی جاسکتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply