پنجاب یونیورسٹی اور تشدد کی روایت۔۔۔ انعام رانا

لکھنا تو تھا اقبال لالہ پر جنھیں جانے کیوں ہر بار ایوب لالہ کہنے کو جی کرتا ہے، لکھنا تو تھا ایک سکرٹ پر جو منصف اعلی کو پریشان کرتا ہے، مگر لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئیے۔ پنجاب یونیورسٹی میں جمیعت پہلی بار مظلوم بنی نظر آئی ہے تو قلم بے اختیار سا ہو گیا ہے۔
جب یہ طے پا گیا کہ میں ایم اے انگلش نہیں وکالت کروں گا تو والد کے حکم پر پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ فارم جمع کرا دیا۔ داخلہ جمع کرانے میں اور عاصم بٹ اکٹھے ہی گئے تو یوں لگا جیسے پھر ایف سی کالج داخلہ لے لیا ہے۔ کئی واقف “جماعتئیے” ملے۔ بٹ کے پریشان ہوتے چہرے کو دیکھ کر میں نے کہا یار یہ ایڈمشن سٹال وغیرہ ہے، لا کالج کا ماحول بہتر ہو گا۔ کچھ دن بعد میرٹ لسٹ دیکھنے گئے اور شکر کیا کہ پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں ایڈمشن ہو گیا ہے۔ میں نے نوٹس بورڈ کے سامنے کھڑے ایک سنجیدہ صورت سے پوچھا کہ آپ کا ایڈمشن ہو گیا؟ خضر صورت نے جواب دیا “الحمداللہ، میں سال سوئم کا طالب علم ہوں، اور اسلامی جمیعت طلبہ کا رفیق ہوں، لیجئیے فارم بھر لیں”۔ مجھے تو فورا پیشاب آ گیا اور بٹ شاید یہ سنتے ہی لا کالج کا گیٹ ٹاپ گیا تھا۔
کچھ متفکر سے میں اور بٹ لا کالج سے نکلے تو ایک کونے میں “پنوں” اپنے مشہور دھسے میں لپٹا ہوا سگریٹ پی رہا تھا۔ اس دھسے کی خاص بات تھی کہ گرمی اور سردی دونوں میں پنوں کے زیب تن رہتا تھا اور دھلا فقط اس وقت تھا جب بنایا گیا تھا۔ پنوں سے دوستی بھی عجب طریقے سے ہوئی تھی۔ ایف سی کالج کے اوائل میں ہی جب پرنسپل کے خلاف ہڑتال ہو گئی اور ہم حیران ہوتے تھے کہ یہ “سیبے والا بم” پھاڑ کر “ہم بیٹے کس کے، قاضی کے” اور “زندہ ہے جمیعت زندہ ہے” والے نعرے کیوں لگ رہے ہیں تو اس جلوس میں میرے ساتھ پنوں بھی کھڑا نعرے لگا رہا تھا۔ یکدم مجھے بولا، “بھائی اپ بھی نعرہ لگائیں، ہم بیٹے کس کے؟ قاضی کے”۔ میں جو ابھی جمیعت سے پوری طرح “واقف” نہیں تھا بولا “تو ہوئیں گا میں تے رانے اکرم دا واں”۔ پنوں پہلے تو شاک ہوا اور پھر بے اختیار ہنس دیا اور ہماری دوستی کی بنیاد پڑ گئی۔ یہ اور بات کہ یہ احسان اس نے کئی بار بتلایا کہ اس “توہین آمیز جواب” پر مجھے علی ہال کی سیر نا کرانا اسکی عظمت کی دلیل تھا اور میں نے بھی ہمیشہ اس سے اتفاق کیا۔ تو وہی پنوں اب لا کالج کے باہر دھسہ لپیٹے سگریٹ پیتا تھا اور خوش تھا کہ اب ہم لا کالج میں بھی اکٹھے ہوں گے۔
گھر آتے ہی میں نے اعلان کر دیا کہ میں لاء پنجاب یونیورسٹی سے نہیں بلکہ پرائیوٹ کالج سے کروں گا۔ والد مرحوم کو لگا کہ بغاوت حدود سے نکل رہی ہے تو اڑ گئے کہ کرنی ہے تو پنجاب یونیورسٹی سے ہی کرنی ہے، تاریخی ادارہ ہے اور میں نے بھی تو وہاں سے کیا تھا۔ عرض کی کہ جب آپ نے وکالت پڑھی تو بس ایک ہی لا کالج تھا اور اب بہتر آپشنز ہیں۔ دوسرا آپکی کلاس فیلو طاہرہ سید تھی اور اب وہاں طاہر بھی گانا نہیں گا سکتا۔ پھر کلاس سسٹم کا شکار اپنے والد پہ نفسیاتی داو مارا کہ دیکھئیے ہماری کلاس کے لوگ اب پنجاب یونیورسٹی میں نہیں پڑتے بلکہ پاکستان یا پنجاب کالج آف لا میں پڑتے ہیں اور بطور مثال فلاں اور فلاں کا بیٹا یا بیٹی پیش کی۔ اگر پنجاب یونیورسٹی سے پڑھا تو کبھی اچھا وکیل نہیں بن سکوں گا اور ساری عمر نعرے ہی مارتا رہوں گا۔ آخری داو کافی سخت تھا سو کام آیا اور میں پنجاب یونیورسٹی سے بچ گیا۔ یہ سب بھائی رؤف کلاسرہ کے ایک جملے سے یاد آیا کہ اچھی کلاس اپنے بچے ان تعلیمی اداروں میں بھیجتی ہی نہیں اور غریب کے بچے بجائے پڑھنے کے یہاں ایک دوسرے کا سر کھولتے رہتے ہیں۔ افسوس یہی حقیقت ہے، تلخ حقیقت۔
جمیعت کے دوست شاید برا منائیں، مگر تلخ بات تو یہ ہے کہ وہ اپنا بویا کاٹ رہے ہیں۔ دہائیوں تک جمیعت نے پنجاب یونیورسٹی پہ قبضہ رکھا اور تشدد کی روایت قائم کی۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا کہ جمیعت میں جانے والے اکثر دوست اپنے کمپلیکس کو دور کرنے کیلئیے جمیعت کو استعمال کرتے تھے۔ دیہات یا چھوٹے شہر سے لاہور آ کر وہ جس “کلچرل شاک” اور کمپلیکس کا شکار ہوتے تھے، جمیعت اسکا شافی علاج تھا۔ جمیعت میں شامل ہوتے ہی انکو شناخت مل جاتی تھی اور ساتھ ہی کہیں بھی کسی کو بھی مار لینے دھمکا لینے کا لائسنس۔ مکڑی کا جال ایسا تھا کہ کلیریکل سٹاف سے لے کر اساتذہ تک “ہمدرد” موجود ہوتے تھے اور “جنے ساڈے نال ویر پایا، اودی ماں نے وین ہی پایا” والا ماحول تھا۔ مگر جمیعت اس ادراک سے محروم رہی کہ بدلتے وقت نے بہت کچھ بدل ڈالا ہے۔ آج جب ان سے ٹکر لینے کے قابل گروہ آ کھڑا ہوا ہے تو مظلوم ہوتے ہوے بھی کسی بھی ہمدردی سے محروم ہیں کیونکہ انکے اپنے بنائے ہوے مظلومین کی تعداد کم نہیں۔
لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ ایک بدمعاش گروہ کے جواب میں دوسرا بدمعاش گروہ کھڑا کر لیا جائے یا اسکی سپورٹ کی جائے۔ غنڈہ گردی اگر جمیعت کی قابل مذمت تھی تو بلوچ پختون سٹوڈنٹ تنظیم کی بھی ہے۔ افسوس دوسرے صوبوں سے ائے طلبا اسی کمپلیکس کا شکار ہیں جس کا جمیعت کا دوست ہوتے ہیں اور علاج بھی وہی دھونڈا جو جمیعت نے دھونڈا تھا۔ انکو یہ سوچنا ہو گا کہ وہ اپنا کیا تاثر بنا رہے ہیں اور وہ جو پنجاب میں تعلیم حاصل کر کے لوٹ جائیں گے تو اپنا کیا تاثر چھوڑ جائیں گے؟ ایک بدمعاش کا؟ یا پھر وہ اپنا ایسا تاثر چھوڑنا پسند کریں گے کہ بلوچ اور پختون بہت محبت کرنے والے لوگ ہیں؟ عفریت سے نفرت کا مطلب یہ بھی نہیں کہ خود ایک عفریت بن جایا جائے۔
اس صورتحال میں سب سے اہم ذمہ داری حکومت پہ ہے۔ دوسرے صوبوں سے طلبا لانے کا مقصد پنجاب اور دوسرے صوبوں میں غلط فہمیاں ختم کرنا تھا۔ مگر موجودہ صورتحال میں یہ قدم الٹا نتیجہ پیدا کر رہا ہے۔ نفاق و نفرت پیدا کرنے والے سرگرم ہیں، یقین نا آئے تو سوشل میڈیا پر ہائے پنجابی، ہئے پختون جیسی بکھری بکواس جگہ جگہ بطور ثبوت مل جائے گی۔ لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ طلبا تنظیموں میں تشدد کی روایت ہر صوبے اور ہر قوم کا ایک سا مسلئہ ہے اور اسکا کوئی تعلق قومیت سے نہیں ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے جمیعت، بلوچ پشتون سٹوڈنٹ یا کسی بھی ایسے گروہ کو مکمل بین کیا جائے جو طلبا کو تعلیم کے بجائے بدمعاشی اور مکالمے کے بجائے تشدد پر اکسائے۔ موجودہ صورتحال میں جب پاکستان کو اتحاد کی سخت ضرورت ہے اور پنجاب یونیورسٹی اس اتحاد کی علامت بن سکتی ہے، انتظامی بداحتیاطی ایک شدید نفاق کو جنم دے گی جس کی قیمت ہم دہائیوں تک ادا کریں گے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply