ماضی کے اکابر دین اور جدید دنیا کے مسائل۔۔۔احمد عمیر اختر

سوال یہ ہے کہ کیا ابن تیمیہ رحمتہ اللہ اور ابن کثیر رحمتہ اللہ جیسے حضرات کی دسترس میں اتنی کتابیں, رسائل مضامین اور تفاسیر تھیں جتنی آج کے عالم دین یا مذہبی دانشور کی دسترس میں ہیں. یقینا ایسا نہیں تھا. آج ایک ادنی سے طالبعلم کی آن لائن لائبریری میں بھی ہزاروں علماء کی کتابیں, ویڈیوز, لیکچرز اور مضامین موجود ہیں. اور وہ انہی کی چھان پھٹک کے بعد اپنی رائے قائم کرتا ہے. اسی موقف کو اپناتا ہے جسے وہ زیادہ مضبوط اور مدلل سمجھتا ہے. چاہے اس کی ڈور ابن تیمہ رحمتہ اللہ سے جا ملے یا ابو حنیفہ رحمتہ اللہ سے.

ماضی کے اہل علم حضرات نے اپنے زمانے کے حساب سے اپنی استطاعت کے مطابق دین کی خدمت کی لیکن آج کی جدید دنیا میں مسائل و وسائل کا توازن ماضی سے بہت مختلف ہے. ہمیں آٹھ صدیوں یا بارہ صدیوں قبل پیش آنے والے مسائل سے کہیں زیادہ اور سنگین مسائل کا سامنا ہے.

اس کی مثال ایسے لیجئے کہ ہم ایک جدید ترین لیپ ٹاپ یا ایل ای ڈی ایک ایسے مکینک سے ٹھیک کروانے کی کوشش کر رہے ہیں جو 1950 میں ریڈیو کا مشہور مکینک تھا. یا ایک ایسے حکیم کی کتاب سے دل کی بائی پاس سرجری کا طریقہ ڈھونڈ رہے ہیں جو آٹھ سو سال قبل دنیا کا مانا ہوا طبیب تھا. جبکہ معاملہ کچھ ایسے ہے کہ ان حضرات نے ایسے وقت میں دین کا کام کیا جب ایک شہر سے دوسرے شہر جانا ہفتوں اور دوسرے ملک جانا مہینوں کا کام تھا. کتابوں کے نسخے آسانی سے دستیاب نہیں تھے اور آج کی نسبت تحقیق کا کام بھی بہت مشکل تھا. چالیس چالیس سال دین کا کام کرنے والوں کی آدھی زندگی اونٹ اور گھوڑے کی پشت پر گزری. جتنا کام آج کے محققین  پانچ سال میں کر رہے ہیں اس کے لئے انہیں بیس بیس سال درکار تھے. آج کے دور میں صحیفہ امام ابن منبہ سے لے کر چند گھنٹے قبل جاری ہونے والے فتوے تک سارا مواد انگلیوں کی ذرا سی جنبش پر دستیاب ہے.

سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ کے واقعات و حالات ان گنت کتابوں, ریکارڈنگ اور مضامین کی شکل میں موجود ہیں جو ہمارے اسلاف تک اتنی آسانی  سے  دستیاب نہیں تھے. جب علم زیادہ موجود ہو تو راہیں اور روشنیاں بھی زیادہ ملتی ہیں. شعور اور بصیرت کی نگاہ زیادہ دور تک دیکھ سکتی ہے. جدید مشینری, کمپیوٹر اور لیول مشینز کے آ جانے کے بعد دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں نئے راستے بنا دئیے گئے جو پرانے راستوں کی نسبت زیادہ محفوظ اور تیز رفتار ہیں. جبکہ پرانے راستوں کو خطرناک کہہ کر بند کر دیا گیا حالانکہ صدیوں سے مسافر اسی راستے سے گزرتے رہے.اور آج سے سو سال بعد شاید آج کے محفوظ شمار ہونے والے راستوں کو بھی بند کر کے وہاں موٹروے بنا دی جائے.

اسی طرح آج اگر کوئی دانشور, محقق, یا عالم دین آپکے لئے نئے راستے کھول رہا ہے تو اس کی قدر کیجئے. اس کے وسیع علم پر اعتماد کریں اور تسلی کے لئے خود بھی تحقیق کیجئے. میں اس معاملے میں مولانا اسحاق صاحب مرحوم, محترم غامدی صاحب اور انجینئر محمد علی مرزا صاحب جیسے حضرات پر اعتماد کرتا ہوں. نیت صاف ہو گی تو انشاءاللہ اللہ ہمارا ہاتھ ضرور تھامے گا. اہم بات یہ ہے کہ حلال و حرام کا دائرہ کتاب اللہ میں دوپہر کے سورج کی طرح واضح کر دیا گیا ہے. کوئی بھی راستہ یا سہولت ان حدود سے متجاوز نہیں  ہونی چاہیے. آپ کسی کی کوئی رائے قبول کرنے یا نہ کرنے میں آزاد ہیں. لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ آپ کے اندر سچ کھوجنے کی لگن اور شوق موجود ہو. اور آپ ہر رائے کو اسی قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھ سکیں.

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم اپنا چھوٹا سا گھر بنواتے وقت ٹھکیدار پر مکمل اعتماد نہیں کرتے, دوسرے عقلمند لوگوں سے بھی مشورہ کرتے ہیں, کام پر نظر رکھتے ہیں, اپنے کاروبار کا سارا نظام کمپیوٹرآئزڈ ہونے کے باوجود گاہے بگاہے اسے کڑے چیک ایند بیلنس سے گزارتے ہیں. لیکن دین کے معاملے میں آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور دل و دماغ کسی فرقے کے مولوی صاحب کے حوالے کر دیتے ہیں جس میں وہ بعض اوقات اپنی مرضی کی ریکارڈنگ بھر کے آپکو واپس کر دیتا ہے. اور آپ دین کے نام پر ایسی پابندیاں اور خرافات قبول کر لیتے ہیں جن کا اللہ اور رسول سے کوئی واسطہ نہیں.

Facebook Comments

احمد عمیر اختر
مکالمہ کو دنیا کے تمام مسائل کا حل اور گولی, گالی کو مسائل کی جڑ سمجھتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply