زمانے کے انداز بدلے گئے۔۔۔گل نوخیز اختر

بالیوں تک تو ٹھیک تھا لیکن مردانہ ماڈلنگ کی کچھ تصاویر دیکھ کر دل اچھل کر حلق میں آ گیا ہے۔ اچھے خاصے نوجوانوں نے میکسیاں پہنی ہوئی ہیں جبکہ ایک جواں مرد نے تو باقاعدہ سر پر دوپٹہ بھی لیا ہوا ہے۔ پہلے خیال آیا کہ شائد نوجوانوں میں کوئی ‘سلکی ٹچ‘ ہے‘ پھر تحقیق کی تو پتا چلا کہ ایسی کوئی بات نہیں‘ سب ٹھیک ٹھاک ہیں۔ میرا واسطہ چونکہ زیادہ تر میڈیا کے لوگوں سے پڑتا ہے اس لیے ہر بیہودہ فیشن جلد ہی نظروں میں آ جاتا ہے۔ میرے ایک دوست ہیں‘ اچھے خاصے پروڈیوسر ہیں لیکن ایسا فیشن کرتے ہیں کہ بعض اوقات فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ موصوف نے فیشن کیا ہے یا کوئی غلطی۔ ایک دن قبلہ دو الگ الگ رنگ کے جوتے پہن آئے۔ دائیں پائوں میں سرخ اور بائیں پائوں میں پیلا۔ منطق پوچھی تو لاپروائی سے فرمایا ”بندے کو سب سے الگ نظر آنا چاہیے‘‘۔ میں نے ہاتھ جوڑے ”حضور بندے کو بندہ بھی تو نظرآنا چاہیے ‘‘۔
یہ بھی فیشن ہے کہ چمکدار کوٹ کے نیچے لال رنگ کی پینٹ پہنی جائے اور مزید نیچے بغیر جرابوں کے بوٹ پہن لیے جائیں جن کے تسمے کھلے ہوں۔ اس قسم کے اکثر لڑکے بالوں میں یا تو پونی کرتے ہیں یا اتنی چمکدار ٹنڈ کرواتے ہیں کہ لگتا ہے لیمینیشن کروائی ہوئی ہے۔ بچپن میں ایک چیونگم ملتی تھی جس کے پیکٹ میں کسی جانور کی تصویر ہوتی تھی‘ اس کا طریقہ استعمال بڑا سادہ تھا‘ بازو پر تھوڑا سا تھوک لگا کر اس پر یہ تصویر والا کاغذ چپکا دیا جاتا تھا اور زور سے دبا کر اٹھایا جاتا تو تصویر بازو پر منتقل ہو جاتی۔ یہ اُس وقت کا ‘ٹیٹو‘ ہوتا تھا جو پہلے ہی غسل میں صاف ہو جاتا تھا۔ عاشق مزاج لوگ محبوبہ کے نام کا پہلا حرف کھدوا لیتے تھے۔ میرے جاننے والے ایک بزرگ کے ہاتھ پر ابھی تک ”S‘‘ کھدا ہوا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ انہوں نے بیگم کی محبت میں لکھوایا تھا۔ میں نے پوچھا آپ کی اہلیہ کا نام تو بلقیس خانم تھا۔ اطمینان سے بولے ”ہاں میں پیار سے اُسے ‘ایس بلقیس خانم‘ کہتا تھا۔
اب یہ رواج دوبارہ چل پڑا ہے‘ دھڑا دھڑ ٹیٹو کھدوائے جاتے ہیں اور سٹائل ایسا کہ ” بندہ لا لتر لوے‘‘۔ یعنی ”گھنی ٹنڈ‘‘ کے عقب میں بچھو کی تصویر… یا بازو کے ڈولے پر ڈنگ مارتا ہوا سانپ۔ نیٹو فورسز کے بعد آج کل یہ ‘ٹیٹو فورسز‘ بڑی عام ہیں۔ ہماری ایک اداکارہ کا ٹیٹو بھی بڑا مشہور ہوا تھا ۔ اُن کی تصویر دیکھ کر بے اختیار تیسری نظر ٹیٹو پر ہی پڑتی تھی۔ میں فیشن کے خلاف نہیں لیکن پھٹی ہوئی جینز‘ ایک طرف سے نکلی ہوئی شرٹ اور لڑکیوں کی طرح کی گئی ‘گُت‘ کو فیشن… میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا…!!!
ڈریس پینٹ شرٹ پہننے کا رواج ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ نئی نسل اسے اولڈ فیشن سمجھتی ہے۔ غضب خدا کا… رائل بلیو کلر کی شرٹ‘ لائٹ گرے کلر کی پینٹ اور نیچے کالے مکیشن کے بوٹ… اس سے اعلیٰ ڈریسنگ کیا ہو سکتی ہے۔ لیکن نہیں! بچے نہیں مانتے۔ آپ ان کو کسی ریڈی میڈ کپڑوں کی دکان پر لے جائیں‘ یہ سب سے پہلے اُس شرٹ کی طرف لپکیں گے جو پوری دکان میں سب سے واہیات لگ رہی ہو گی۔ جوتیوں کی دکان پر لے جائیں تو ہر وہ جوتی اِن کی پسندیدہ ٹھہرے گی جو ہمارے دور میں پہننے سے زیادہ مارنے کے کام آتی تھی۔ لیکن خوشی کی بات ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر ولیمہ اور بارات… یہ دو فنکشن ایسے ہیں جس میں نوجوان نسل بھی کوٹ پینٹ پہننا پسند کرتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے کوٹ پینٹ میں بھی کہیں نہ کہیں کوئی ‘چَول‘ ضرور جھلک رہی ہوتی ہے۔ مثلاً کل محلے کی ایک شادی میں جانا ہوا۔ ایک فیشن ایبل نوجوان نے کوٹ پینٹ پہن رکھا تھا لیکن شرٹ کے اوپر والا بٹن کھول کر ٹائی کی ناٹ یوں لگا رکھی تھی گویا ابھی ابھی دفتر سے تھک ہار کر گھر پہنچا ہو۔ ایسی واہیات ناٹ کو صرف ایک ہی نام دیا جا سکتا ہے …Do not …!!!
نئی نسل شلوار قمیص تو پہنتی ہی نہیں‘ اور اگر پہن لے تو وہاں بھی ‘کھچ‘ مارنے سے باز نہیں آتی۔ آپ ہی بتائیں‘ ہاف بازو والی قمیص کے ساتھ کھلے گھیرے اور پھولوں والی شلوار کیسی لگتی ہے؟ فیشن کا یہ سلسلہ صرف یہیں تک محدود نہیں۔ میں تو صبح سے سکتے کے عالم میں ہوں… سڑک پر ایک نوجوان دیکھا جس نے ‘ہاف مونچھ‘ رکھی ہوئی تھی۔ جس تیزی سے نوجوانوں میں منفرد نظر آنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اس سے کوئی بعید نہیں کہ آئندہ چند سالوں بعد نوجوان ایسی چیزیں بھی پہننے لگیں جو بہرحال اُنہیں ہرگز نہیں پہننی چاہئیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ ناخن بڑھا لیں۔ نیل پالش لگانا شروع کر دیں۔ چلو یہاں تک بھی خیر ہے… لیکن ڈریں اُس وقت سے جب لڑکے ایڑھی والی جوتی پہن کر پرس لٹکانا شروع کر دیں۔ فیشن کی اس یلغار میں کام کی چیز خریدنی ہو تو چھ دکانیں پھرنا پڑتی ہیں۔ میں عموماً گرمیوں کے موسم میں گھر میں ٹرائوزر اور ٹی شرٹ پہنتا ہوں۔ پچھلے دنوں کچھ نئے ٹرائوژر خریدنے گیا تو پتا چلا کہ آج کل نئے فیشن کے ٹائٹ پائنچوں والے ٹرائوزر چل رہے ہیں۔ لا حول ولا قوۃ… بلکہ ایک دفعہ پھر لا حول ولا قوۃ… یعنی ٹائٹ ترین پائنچے پہنیں اور42 ڈگری سینٹی گریڈ میں دیوار سے ٹکریں مارتے پھریں۔ یہ فیشن فی الفور ختم ہونا چاہیے کیونکہ اِس کے نتیجے میں سڑکیں مزید تنگ ہونے کا خطرہ ہے کہ لوگ ‘آسان باش‘ پوزیشن میں چلنا شروع کر دیں گے۔
ان تمام خطرات کے باوجود دل کو تھوڑی سی تسلی ضرور ہے کہ میں نے بہت کم ایسے نوجوان دیکھے ہیں جو شادی کے بعد اپنا فیشن برقرار رکھ سکیں۔ گویا شادی اِس اہم ترین مسئلے کا بھی حل ہے۔ تاہم دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اتنی شادیاں نہیں ہوتیں جتنی ولادتیں ہوتی ہیں… اسی لئے الائنمنٹ آئوٹ ہے۔ سُدھر کم رہے ہیں بگڑ زیادہ رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب Pink کلر صرف لڑکیوں کے لیے مخصوص ہوتا تھا‘ آج کل مردوں میں بھی عام ہے۔ چلیں اس کو بھی معاف کر دیتے ہیں کیونکہ خود میرے پاس بھی دو تین پنک کلر کی شرٹیں موجود ہیں۔ زیادہ افسوس اِس بات کا ہے کہ بھلا بیلٹ کے بغیر بھی کوئی پینٹ پہنتا ہے؟ جی ہاں پہنتے ہیں اور Below the belt پہنتے ہیں جسے دیکھ کر اکثر لگتا ہے کہ اگلے چوک تک گانا چل جائے گا… ”تو چل میں آئی‘‘…!!!
اب مارکیٹ میں کاشی کاری سے عاری اور پلین ٹی شرٹ ڈھونڈنے میں وقت لگتا ہے‘ ڈیزائن سے عاری سمپل کوٹ بھی نہیں ملتا۔ اوپر سے کرتا شلوار کا بھی نیا رواج آ گیا ہے۔ کرتا وہی پرانا ہے‘ شلوار الاسٹک والے پاجامے میں بدل گئی ہے۔ میرا ایک دوست اس فیشن سے بڑا خوش تھا کہ زندگی آسان ہو گئی ہے۔ لیکن پرسوں جو اس کے ساتھ ہوا اس کے بعد اس نے پاجامہ پہننے سے توبہ کر لی ہے۔ موصوف صبح جلدی میں تیار ہو کر دفتر آئے تو کرتا پاجامہ پہنا ہوا تھا… تھوڑی دیر بعد گھر سے بیگم کا فون آیا… تھوڑی دیر تو بڑے اطمینان سے بات سنتے رہے لیکن پھر پتا نہیں دوسری طرف سے کیا سُنا کہ اچانک ہی رنگ فق ہو گیا… ایک نظر پاجامے پر ڈالی ‘ تیزی سے بیگ پکڑا اور دوڑتے ہوئے دفتر سے نکل گئے…!!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply