ہمارا پرچم !……ضیا اللہ ہمدرد

پاکستان اس لحاظ سے بھی خوش قسمت رہا ہے کہ اس کے ملی نغموں کے لئے ملکہ ترنم نورجہاں ، ناہید اختر، استاد امانت علی خان، مہدی حسن، جنید جمشید ۔۔۔۔ جیسی سریلی آوازیں ملیں اور مٹی کی محبت میں کچھ آشفتہ سروں نے جس انداز سے اسے گلہائے عقیدت پیش کئے، آج بھی سن کر آنکھوں میں بے اختیار آنسو آجاتے ہیں۔ مرے محبوب وطن جاں ہو، اگر تجھ پہ نثار، میں یہ سمجھوں گا، ٹھکانے لگا سرمایہ تن، اے مرے پیارے وطن ! اس نغمے میں گائیک اور موسیقار نے لفظ نثار کو جس طرح کھینچا ہے، وہ شاید جیل میں پڑے ہوئے ایک غدارِ وطن، اہلِ صفا اور مردودِ حرم فیض احمد کو بھی اسقدر پسند آیا کہ اس نے اپنے مشہورِ زمانہ شعر نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں، چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے ، کے لفظ سے شروع کیا۔

پاکستان کے سارے ہٹ ملی نغمے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے گولڈن ایج سے تعلق رکھتے ہیں، یہ وہ زمانہ تھا جب ملی نغموں کا پراجیکٹ آئی ایس پی آر کے پاس نیں تھا، پاکستانی ریاست نے امریکہ کے ساتھ مل کر روس کے خلاف جہاد شروع نہیں کیا تھا، نائن الیون نہیں ہوا تھا، پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صفِ اول کا اتحادی نہیں بنا تھا، ستر ہزار لوگ نہیں مارے گئے تھے۔ ملک میں اچھے اور برے طالبان نہیں تھے، احسان اللہ احسان سکول اڑانے اور لوگوں کو ٹپکانے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا تھا۔ پاک فوج تب بھی اپنی بیرکوں تک تو محدود نہیں تھی، لیکن اقتدار میں ہوتے ہوئے کم از کم چیک پوسٹوں پر شناختی کارڈ، راشن کارڈ، وطن کارڈ نہیں دیکھتی تھی، اوردشمن کے بچوں کو پڑھانے کی بجائے وہ فیض اور جالب جیسے ہم دیکھیں گے، اور میں نہیں مانتا، اور بھٹو، ولی خان اور دیگر غداروں کو پڑھانے میں مصروف تھی۔

میری اپنی عمر تو میرا سے بیس سال کم ہے کیونکہ جب میں بیس سال کا تھا، تو میں میرا کی تصویریں اخباروں میں دیکھتا تھا۔۔ اس وقت وہ ریما پر سبقت حاصل کرنے کے لئے انگریزی نہیں جھاڑتی تھی۔ اس وقت ہم اخبارات کے سپورٹس اور شوبز کے علاوہ دیگر پیجز کو بکواس سمجھتے تھے، خیر وہ اب بھی سمجھتے ہیں، لیکن اس زمانے میں بھی حب الوطنی کا یہ عالم تھا، کہ جشنِ آزدی کی خوشی میں پی ٹی وی پر محمد علی کی فلم حب الوطنی کا حصہ سمجھ کر دیکھتے تھے، جس میں لاڈو مارکہ صابن کی طرف سے بھی جشنِ آزادی کی اتنی مبارکباد ملی ہے، کہ کبھی کبھار سوچتے ہیں کہ ان کے کارخانے جاکر سود سمیت واپس لوٹادیں۔ اس زمانے میں چھوٹے چھوٹے بچے اگست کا مہینہ آتے ہی بک سیلرز سے پاکستان کے جھنڈے اور بیج خریدا کر کپڑوں میں لگایا کرتے تھے۔

آج کل پاکستان کا بیج صرف علی محمد خان لگاتا ہے، شاید وہ ابھی تک بچہ ہے، یا پھر بچپن کی عادتیں اتنی آسانی سے نہیں چھوٹتی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس زمانے میں بلوچ غدار نہیں تھے، پشتون گل خان تھے لیکن دہشت گرد نہیں تھ، چاروں صوبے پوری طرح پاکستانی تھے۔ اس زمانے میں زید حامد قسطنطنیہ سے ہو کر غرناطہ میں فتح کے جھنڈے گاڑ رہا تھا اور عامر لیاقت نے ایگزیکٹ یونیورسٹی سے ڈگری حاصل نہین کی تھی، لیکن کبھی بھی ریاستی اداروں کو لوگوں میں لاٹھی کے زور پر حب الوطنی کا شعور بیدار کرنے کے لئے زبردستی دکانوں کے دروزوں اور گھروں کی دیواروں پر پاکستان کے جھنڈے بنانے کی ضرورت درپیش نہیں ہوئی تھی، کیونکہ پورے پاکستان میں عید ایک روز ہوتی تھی، اور پختونخوا میں دوسرے روز، لیکن سوات کے لوگ اس قدر محبِ وطن تھے کہ ریاستِ پاکستان کے ساتھ عید مناتے تھے اور انہیں منیب الرحمان کی آنکھوں پر بھی شک نہیں تھا۔ اس زمانے میں سوات ایشیا کا سوئیٹرزلینڈ ہوا کرتا تھا، اور دریاوں کا باپ اباسین یعنی دریائے سندھ سبزہ زاروں اور پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی ہوئی پوری مستی کے ملکی اور غیرملکی سیاحوں کو دعوتِ نظارہ دیتی تھی، اور مالاکنڈ کی چوٹی پر یا قربان کی صدائیں بلند ہوتی تھیں، آوارگی میں حد سے گزرجانے والے رات بھر گلیوں میں پھرا کرتے تھے اور رات کو بانسری کی سریلی صدائیں سنائی دیتی تھی۔

پھر پاکستان اسرائیل، ہندوستان، امریکہ اور یورپ کے یہود و ہنود کی نظروں میں آگیا۔ انہوں نے پٹھانوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ پہلے صوفی محمد اور فضل اللہ وغیرہ کو ساتھ ملایا، اس کے لئے ایف ایم چینل کھول لئے، ان کا بیانیہ مضبوط کیا، ان کو بہت سارے نوجوان اور مسلم خان بناکر دئے، پھر سوات میں اسلام دشمنوں کو چوک میں لٹکایا، مشران کو ان کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ میں مروایا، کچھ کو امن کمیٹی کے سربراہ اور ممبر بنا کر مروایا گیا، سڑکوں پر دو چیک پوسٹیں ہوتی تھی، ایک دشمنوں کی اور ایک محب وطن دوستوں کی، تاکہ دشمنوں پر بھی نظر رکھی جاسکے۔۔ لیکن پھر ایک مرحلہ ایسا آیا کہ پاکستانی ریاست کو خیال آیا کہ اب دشمنوں کو دندان شکست دینا ضروری ہے۔ اس لئے ریاست کو اپنی ساری مشینری ان کے خلاف استعمال کرنی پڑی، لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑی، انہیں خیموں میں رہنا پڑا۔ ایک بچی جس کا نام امن رکھا گیا، شاید اس داستان کے دوران خیمے میں پیدا ہوئی۔ ریاست کو ہزاروں لوگوں کو غائب کرنا پڑا، بہت ساروں کو انٹرمنٹ سنٹرز میں رکھنا پڑا۔ ہیومن رائٹس کے چیمپئن گوانتا نامو بے میں لوگوں رکھ سکتا ہے، تو پاکستانی ریاست قوم کے عظیم تر مفاد اور اسلام کی سربلندی کے لئے کیوں ایسا نہیں کرسکتی۔ امریکہ میں تو عدالتیں پھر بھی کام کرتی ہیں، یہاں تو عدالتوں نے بھی ان کو کہا تھا کہ ٹھیک ہے جو کرنا ہے کرلو، لیکن مسئلہ ان لوگوں تک محدود نہیں تھا جو پاکستان کی خاطر تاریک کمروں میں مارے گئے، پیٹے گئے، بموں سے اڑا دئے گئے، چوکوں پر لٹکائے گئے، بلکہ ان کے خاندانوں کا بھی ہے۔

آج میں خاص طور پر سوات اس لئے گیا تھا کہ را اور این ڈی ایس کے ایجنٹوں نے ملک میں جوغداری کی فضا قائم کی ہے، ذرا دیکھ لوں، کہ ان کے پاس کون لوگ ہیں۔ اور کیا کہہ کر لوگوں کو غدار بنا رہے ہیں جس کا مین سٹریم میڈیا میں ہنگامہ ہے۔ ایک بچی کو روتے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ غداروں کے خاندان کے بھی جذبات ہوتے ہیں۔ ایک والد نے سٹیج پر آکر کہا کہ اس کے پانچ بچے ہیں، اور پانچوں غائب ہیں۔ آج درد کے ماروں کا سمندر تھا، ہر کوئی چاہتا تھا کہ را اور این ڈی ایس کا ایجنٹ منظور غدار ان کی کہانی دنیا کے سامنے رکھ دے تاکہ بیس کروڑ کے اس جنگل میں کسی عدالت کے جج کو اندازہ ہو، کہ ان کے ہوئے ہوئے لوگ اپنی فریاد را کے ایجنٹس کے پاس لے جاتے ہیں۔ جذبانی نوجوان تھے کہ منظور کو چی گویرا بنانے پر تلے ہوئے تھے، عجیب و غریب نعرے لگا رہے تھے، ایجنٹس اسی قسم کے نعرے لگاتے ہیں، پیسے جو ملتے ہیں۔ اتنی اچھی ایکٹنگ کی کہ ابھی تک آنسو رک نہیں پا رہے۔ آسکر ملنا چاہئے ویسے ان لوگوں کو۔ کہاں کہاں سے ڈھونڈ لاتے ہیں ایسے ایکٹرز۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، لیکن جب اپنے اسے استعمال نہیں کرتے تو دشمن استعمال کرنا شروع کرتے ہیں۔ منظور پشتین اور اس کے ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ مجھے کیوں نکالا وزیر اعظم اور مجھے کیوں نکالا خارجہ وزیر نے ویسے ہی اقامہ رکھا ہوا تھا، پاکستان میں رہ کر بھی پیسے بنائے جاسکتے ہیں۔

باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ را کے ایجنٹوں نے جب سے یہ ڈرامہ شروع کیا ہے، تو انہوں نے اسے سیاسی پارٹیوں کی اقتدار کے لئے کشمکش، ہم سب امید سے ہیں، اگلی باری پھر زرداری، عمران خان وزیر اعظم، سینٹ میں کس پارٹی کے زیادہ لوگ بکے، بولی کس نے لگائی، کس نے خریداری کی، میرا لیڈر صادق امین ہے، تمہارا لیڈر چور ہے، اسلام کو شدید خطرات لاحق ہیں، چہ جلسے لہ زے نو اجازت بہ اخلئ جیسے محب وطنوں سے دور رکھنے کے لئے ہر قسم کے جھنڈوں سے اس تحریک کو پاک رکھا اور احتجاج کے لئے صرف سیاہ و سفید جھنڈے لانے کو کہا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بھرتی کیا جاسکے، لیکن را اور این ڈی ایس کے ایجنٹس کو معلوم ہی نہیں تھا کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے. اپنی مرضی سے دکان کے شٹر اور گھر کی دیوار پر سبز ہلالی پرچم بنانے کے بعد حب الوطنی سے سرشار سوات کے ایک رہائشی نوجوان ڈرون خان کو حب الوطنی اور اے آر وائی چینل نے بے قرار کیا تو سبزہلالی پرچم اٹھا کر ریاست کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے ان نوجوانوں کو حب الوطنی، اور غداری سے دور رکھنے کا نسخہ بتانے، اور ان کی حب الوطنی جگانے کی کوشش کی، لیکن غداروں نے کہ کہہ کر رخصت کر دیا کہ ہم نے تو افغانستان اور ہندوستان کے جھنڈے اٹھائے ہیں، آپ کس طرح پاکستانی پرچم لہرا سکتے ہیں۔ ہمیں تو دوسرے جھنڈے لگانے کے پیسے ملے ہیں۔ دیکھ نہیں رہے حاضرین کے ہاتھوں میں جھنڈے ؟ اور پھر پاکستانی پرچم کی کہانی پوری میڈیا پر آگئی۔

شکر ہے پاکستان کو حب الوطنی سے بھرپور میڈیا ملا ہے ورنہ ففتھ جنریشن وار میں شکست یقینی تھی، جو را، این ڈی ایس، موساد اور کے جی بی نے مشترکہ طور پر پاکستان کے خلاف شروع کر رکھی ہے۔ اگر کسی کو ریاست سے گلہ بھی ہو، تو اسے چاہئے کہ احتجاج کرتے وقت پاکستان کا جھنڈا ہاتھ میں لے کر جائیں، اور کپڑوں کے اوپر بیج لگا کر جائیں ورنہ پاکستانی میڈیا اور محب وطن سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں کی نظر ہمیشہ غداروں کی تقریروں، اوٹ پٹانگ نعروں، ماووں بہنوں کی فریاد کی بجائے، ایسی چیزوں پر ہوتی ہے، جو کسی بھی طرح ان غداروں کو غدار قرار دے کر پھانسی چڑھائے اور اپنے ہی سپین خانوں اور گل خانوں کے ذریعے انہیں ملامت کرے۔ اب غداروں نے یہ حرکت کی ہے، تو دوستوں سے گزارش ہے کہ خدا کے لئے مجھے ایسی پوسٹوں میں مینشن نہ کریں۔ اب جب آپ کو معلوم ہے کہ وہ غدار ہیں، تو آپ ان سے کیا توقع کرتے ہیں کہ وہ چہروں پر پاکستان کے جھنڈے پینٹ کریں گے ؟ یہ کوئی پاکستان اور ہندوستان کا میچ تو نہیں تھا۔ غداروں سے حب الوطنی والے کاموں کی توقع رکھنے والوں کو اکیس توپوں کی سلامی۔ ویسے بھی ان ناپاک لوگوں کے ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم میں دیکھنا گوارا بھی نہیں کرتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پتہ نہیں حب الوطنی کیا چیز ہوتی ہے؟ ایک مشہور رائٹر کا مشہور مقولہ ہے کہ ایک خالی پیٹ کبھی بھی محب وطن نہیں ہو سکتا۔ مجھے نہیں معلوم وہ سالا کس قوم سے تھا، لیکن جہاں سے بھی تھا اس کی یہ بکواس میں نہیں مانتا۔ میں نے تو پاکستان کے اندر رہتے ہوئے دیکھا ہے کہ خالی پیٹ ہی اس ملک کے اصل محب وطن ہیں، جن کے توند نکل آئے ہیں، یا جن کی کوٹھیاں ہیں، ان کا حب الوطنی سے کوئی سروکار نہیں ہے، پاکستان کھانے والوں اور بنانے والوں کی صحت میں ویسے بھی فرق ہوتا ہے۔ پھر بھی آپ نہیں مانے۔ ہمارا پرچم! یہ پیارا پرچم! یہ پرچموں میں، عظیم پرچم! عطائے ربِ کریم پرچم! ناہید اختر کی سریلی آواز آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ نفرتوں کے دروازے ان پہ بند ہی رکھنا، اس وطن کے پرچم کو سربلند ہی رکھنا! شاعر نے کمال کردیا ہے، لیکن اس وطن کے پرچم کو وہ لوگ ہرگز سربلند نہیں رکھ سکتے جو اس ملک کے آئین اور قانون کو نہیں مانتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پی ٹی ایم کے غداروں نے اس لڑکے کو پرچم لانے سے منع کیا، لیکن برائے مہربانی مجھے حب الوطنی سکھانے کی بجائے ان لوگوں کی بات سنیں۔ ان ماووں کی فریاد سنیں۔ ان کے بیٹوں کو پھانسی لٹکا دیں، لیکن انہیں ان کا قصور بتا دیں یا صرف اتنا بتا دیں کہ وہ کہاں ہیں۔ شکریہ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply