اقبالؒ کی شخصیت چند مشہور اشعار کی روشنی میں

آج شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا جنم دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جس دن تصور پاکستان کی خالق شخصیت کا ظہور ہوا۔اقبال ایک راسخ العقیدہ مسلمان، اعلٰی پاۓشاعر، عظیم مفکر اور راہنما تھے۔ اقبال کی شخصیت کا احاطہ صرف شاعری کی حد تک محدود نہیں۔ اقبال ایک نئی سوچ اور نیا نظریہ دینے والی شخصیت تھی۔ اقبال کا شمار برصغیر کی ممتاز شخصیات میں ہوتا تھا۔ اقبال کی بطور فلسفی پہچان ، جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ہوئی۔ اقبال وہ واحد شخصیت تھی جس نے مسلمانان ہند کو ایک علیحدہ اسلامی نظریاتی ریاست کا تصور اپنے خطبہء الہ آباد میں دیا۔ اقبال کے خطبہ الہ آباد کا اگر بغور جائزہ لیا جاۓ تو اس میں مسلمان اور ہندوکو دو تہذیبوں کے درمیان تصادم قرار دیا گیا ہے۔ اقبال کا نظریہ پاکستان سیاسی، معاشی اور معاشرتی لحاظ سے درست ثابت ہوا۔ اقبال کی اگر شاعری کا تنقیدی طور پر جائزہ لیا جاۓ تو اقبال کی شخصیت ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور درد دل والے انسان کے طور پر سامنے آتی ہے۔ اقبال کی شاعری زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فرمائی ہے۔ اگر اقبال کی شاعری کو بطور طالب علم پڑھا جاۓ تو ہمیں ہر گزرتے ہوئے عنوان کے ساتھ اقبال کی شخصیت مختلف کرداروں میں نظر آۓ گی۔ اقبال کو ہم ہر کردار میں پاتے ہیں۔ اقبال کی شخصیت انکے چند مشہور اشعار کی روشنی میں؛ اقبال ایک توحید پرست خودی کا سرِ نہاں لا الہ اللہ خودی ہے تیغِ فساں لا الہ اللہ اقبال کے اس شعر کو اگر پڑھا جاۓ تو ہمیں اقبال خالصتاً تو حید پرست نظر آتا ہے۔ اقبال ایک عاشقِ رسولؐ قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کردے کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں اقبال کے ان اشعار میں ہمیں اقبال ایک عاشق رسول اور سچا مسلمان نظر آتا ہے۔جس کے نزدیک عشق رسول ایک لازمی عنصر ہے۔ اقبال کا فلسفہ خودی سفال ہند سے مینہ و جام پیدا کر خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر اقبال اپنے ان اشعار سے ہمیں مغرب کی چکا چوند سے دور رہنے کو کہتے ہیں۔ اور انکے نزدیک ہماری خودی ایک دن ہمیں اس مقام تک لے جاۓ گی ، جہاں دوسری اقوام عالم احساس کمتری محسوس کریں گی۔ اقبال کی شاعری اور طالب علم خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں تجھے کتاب سے ہرگز ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں تو اقبال اپنے اس شعر میں طالب علم کو سرزنش کرتے ہیں کہ ۔تو کتابیں تو بہت پڑھتا ہے لیکن اپنے اندر اتنی قابلیت پیدا کرو کہ خود صاحب کتاب بن جاؤ۔ اقبال کی شخصیت کا احا طہ کرنے کے لیے یہ چند اشعار ہی کافی ہیں۔ اہل دانش اقبال کی شخصیت کو مختلف پیراۓ میں لیتے ہیں۔ مذہبی رجحانات کے حامل افراد اقبال کی شخصیت کو ایک عظیم راہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں۔لبرل نظریات کے حامل افراد اقبال کو ایک آفاقی شاعر کی بجاۓ مخصوص طبقہ کا شاعر کہتے ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن میرا ان سے صرف ایک سوال ہے اگر اقبال کی شخصیت عالمگیر نہ ہوتی تو اقبال پر اتنی تحقیق بھی نہ ہوتی ہے۔ اقبال وہ واحد خاکی ہے جس پر دنیا کے تمام تعلیمی اداروں اور اہل دانش نے تحقیق کی اور اپنے نظریات کی تصدیق کی۔ جس فکر اقبال پر یہ ریاست وجود میں لائی گئی تھی۔ آج وہ نظریات دفن ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اقبال کا شاہین اپنے پَر کٹوا چکا ہے، اقبال کا نوجوان خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے، اقبال کی خودی کو کشکول میں دفن کردیا گیا ہے اور خاص الخاص اقبال کی مسلمانیت کہیں نظر نہیں آتی ۔ آج ہم ایک قوم کم اور ہجوم زیادہ نظر آرہے ہیں۔ آج ہم میں اتحاد کی کمی ہے، اقبال کی مسلم لیگ کے وارث آج اسکی ولادت پر چھٹی کرنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ آج ہماری نظریاتی سرحدیں پاش پاش ہوچکی ہیں، ہم اپنوں سے زیادہ اغیار پر اعتماد کرتے ہیں۔ ہماری خودی دم توڑ چکی ہے۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply