چلے تھے دِیو سائی ۔۔۔۔ جاویدخان/قسط17

جگلوٹ:
راے کو ٹ سے ۷۲ کلومیٹر کے بعد جگلوٹ آتا ہے۔ایک تنگ سی سڑک شاہراہ ریشم سے بِچھڑ کر دَریائے سندھ کے اُوپر (پُل)سے گُزر تی ہوئی اَستور کو جاتی ہے۔جگلوٹ سے اَستور ۵۵کلومیڑ پڑتا ہے۔شاہراہ ریشم سے اَستور روڈ پہ دائیں طرف مُڑتے ہی چند موڑ کاٹنے ضروری ہیں۔پھر دائیں طرف مٹیالے پہاڑوں کے درمیان سے برف کے پہاڑ کا ایک خُوبصُورت منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔چلتی گاڑی سے یہ سفیدحُسن کچھ دیر آنکھوں کے سامنے رہ کر اُوجھل ہو گیا۔یہ نانگا پربت کا ایک اَور منظر تھا۔
اَستورسڑک:
اَستور سڑک تنگ اَور پُر خطر ہے۔سخت چٹانوں کو کاٹ کر اِنسانی ہاتھوں نے یہ راستہ بنایا ہے۔گوشت پوست کے اِنسان کو عقل اللہ کاخاص تحفہ ہے۔چٹانوں کے چھجے اُبھر کر باہر کو جھانک رہے تھے۔اِن اُبھرے ہوئے چھجوں پہ بڑے بڑے پہاڑ اَور اُن پہ کئی سو فُٹ ملبہ کھڑا ہے۔پہلی دفعہ دیکھنے پر ایسے لگتا ہے جیسے یہ اَبھی گُزرتی گاڑیوں پہ آن گریں گے۔اِن نوکیلی چٹانوں کے نیچے مجبور سڑک گُزرتی ہے تو دوسری طرف نیچے بغیر کِسی رکاوٹ کے پہاڑی نالہ سرکشی کرتا ہوُا مخالف سمت میں بہہ رہا ہے۔بڑے بڑے پہاڑ اِس میں سینہ تانے کھڑے ہیں۔ مٹِیا لہ پانی اِن پتھروں سے ٹکرا کر چھلانگیں مارتا بہتاجاتاہے۔نالے کے دونوں طرف ۰۹ درجے کا زاویہ بناتی، کھڑی خوفناک چٹانوں کے چہروں سے بے رحمی اَورہیبت ٹپک رہی ہے۔
نالے کے دونوں طرف دیوار کی طرح اَسیتادہ یہ چٹانیں خاموش زبان میں آرپار جیسے ایک دُوسرے سے محو گُفتگوہیں۔یہ انسانی ڈِبے (گاڑیاں) اِن کی کیا اَوقات؟۔ہم چاہیں تو اِن کو پاؤں کی ایک ٹھوکر سے نیچے لڑھکا دیں یا اَپنے قدموں تلے پچک کر رکھ دیں۔
اِنسانی ہمت نے رَفتہ رَفتہ ہر خوف اَور ہیبت کو شکست دی ہے۔اِسی ہمت نے اِن ہیبت ناک چٹانوں کو تراشا،اِن دُشوارَ اور نوکیلی چٹانوں کو کاٹ کر راستہ بنانے والے مزدوروں کاپسینہ َاور مشقت ایک اِنسان دوست آنکھ کو جگہ جگہ بکھری نظر آتی ہے۔سخت مشقت کے بدلے اُنھیں صرف تن کااَدنی ٰ کپڑا اور سُوکھی روٹی ملی ہو گی۔جبکہ بھاری بھر ر َ قم کسی ٹھکیدار اَور محکمہ کے کارندوں کے درمیان سمجھوتہ کر گئی ہوگی۔ اِنتہائے سادگی سے مات کھا کر بھی مزدور کھڑا ہے۔بھوکے،کمزور َاور لاغر وجود کی محنت پہ دُنیا کھڑی ہے۔زندگی کی رُونق،اِن شہروں کی جِھل مِل روشنیوں میں خُون مزدور ہی تو دوڑ رہا ہے۔اِس کی مشقت دوڑ رہی ہے اَوراِس کی ہمت دوڑ رہی ہے۔اَستورکی اِس خطرناک سڑک کو بنانے والے نہ جانے کتنے ہی مزدور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں گے۔سڑک کنارے کہیں کہیں،اِس وقت بھی مزدور سڑک سنوارنے میں مصروف تھے۔آبشاروں کے پانی کے لیے نالیوں کو گہر ا کر رہے تھے تاکہ پانی کا زور سڑک کو توڑ نہ پاے۔

چلے تھے دیوسائی۔۔۔۔ جاویدخان/قسط16

اَستور چیک پوسٹ کاخُوبصُورَت پیغام:

اَستور کے داخلی دروازے (گیٹ)پہ چوکی کے باہر ایک رنگین اَور بڑی تختی آویزاں ہے اَور اُس پہ یہ خُوبصُورت تحریر لکھی ہے۔
”جِس بیگ میں بوتل، پانی اَور بِسکٹ لائے تھے۔اُس میں ریپر اورخالی بوتلیں ساتھ لے جانا بَہت مُشکل تو نہیں“۔
یہ تحریر ہماری مجموعی نفسیات پہ ایک زناٹے دار تھپڑ ہے۔اَیسے بیسیوں تھپڑ بھی شاید ہماری اِصلاح نہ کر سکیں۔کیوں کہ آگے چل کر اَندازہ ہوا کہ اِس تحریر کو دیکھنے والے اَیسے ہی دیکھ کر گُزر جاتے ہیں۔اُنھوں نے اِس سے کوئی خاص سبق نہ سیکھا۔قلب و ذہین کی کھیتیاں جب بَنجر ہو جائیں تو اُن پہ کلام نرم و نازک کم اَثر کرتا ہے۔یہاں صرف وہ بیج اَثرکرتے ہیں جو اِنتشار کے کانٹوں سے لیس ہیں۔یہ بیج اِن خُوبصُورت وادیوں میں جبراً ڈالے گئے۔یہ خار جگہ جگہ زیر زمین سر چھپائے بیٹھے ہیں، مناسب موقع  کے انتظار میں کہ کب،کہاں اور کیسے موقع ملے تو وہ سر نکالیں۔اور محبت،خلوص،بھائی چارے اَور اَمن کے لباس کو تار تار کرڈالیں۔
خُوبصُورت نظاروں کے پَس ِ منظر میں،خُوبصُورت تصاویر اُتار کر چاردانگ ِ عالم چرچا کرنا اَچھا شُغل سہی مگر اِن خُوبصورت جگہوں پہ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر پھینک کے چلے جانا،بیمار ذہنیت کی علامت ہے۔یہ ذہنیت مُجھے اکثر جگہوں پہ نظر آئی، اَپنے شہروں میں،مساجد کے آگے،تولی پیر،بنجوسہ،گنگاچوٹی،سدھن گلی،دیوی گلی،مری،کلر کہار،نیلم اَور میرپور منگلا ڈیم کے نیلنگوں پانیوں کے کنارے۔
مسجدوں کے بیت الخلاؤں میں لکھی گئی عبارتیں  ہماری بیتُ الخلائی ذہنیت کی عکاس ہیں،گلی گلی پھیلی سرانڈ،کالے بدبُودار نالے جوہر طرح کے چراثیموں اَور ہر بیماری کی اَفزائش کرتے ہیں۔اِن نالوں میں بہتی کالک ہمارے اَندر کی کالک ہے۔جو برسوں گُزرنے کے باوجود ہ صاف ہونے کے بجاے دِن بدن بڑھ ہی رہی ہے۔
”صفائی نصف ِ ایمان ہے“
اِس پیغمبرانہ قول کی عملی تصویر صرف چہروں ا َ ور تصویروں کی حد تک تو نظر آتی ہے۔باقی کے سماج میں اِس کی کوئی عملی شکل موجودنہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply