گلگت بلتستان میں صحافت کے نام پر اخباری کاروبار۔

آج کے اس دور میں اگر میڈیا کی بات کریں تو کہا یہ جاتا ہے کہ کسی بھی ملک یا خطے کی معیشت کی بہتری اورقومی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کیلئے سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ میڈیا کا آزاد ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اس وقت دنیا میں میڈیا چاہئے ,پرنٹ ہو یا الیکٹرانک یا سوشل ,کہا یہ جاتا ہے کہ یہ ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ جس خطے کے پاس میڈیا جتنا آزاد اور طاقتور ہوگا وہ ممالک یا خطے اتنے مضبوط ہو ں گے لیکن نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مملکت پاکستان کے میڈیا کی طرف ایک نظر دوڑائیں تو سوائے مایوسی ،سیاسی جھگڑے فساد اور مذہبی منافرتی پرچار کے ساتھ مالی مفادات کیلئے ریاستی معاملات کی سودا بازی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔قومی میڈیا کا مسئلہ چونکہ بہت زیادہ وسیع ہے جس پر بڑے اچھے لکھنے اور بولنے والے بھی ان کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں۔ میرا مقدمہ ہمیشہ سے گلگت بلتستان ہی ہے اور رہے گا کیونکہ میں ایک ایسے گھرانے کا فرد ہوں جہاں نظام زندگی کی تعریف آج بھی مجھے مشکل لگتی ہے ،کیونکہ میرا تعلق اُس قبیلے سے ہے جو تاریخی اعتبار سے صدیوں سے وسیع جعرافیہ اور ثقافت رکھتے ہیں، مجھے خوشی ہے کہ میں سندھ، پنجاب اور کشمیر سے بھی قدیم تاریخ کا مالک ہوں لیکن آج میری کوئی قانونی شناخت نہیں یقیناًاس کی ایک بنیادی وجہ بھی میڈیا سے ہی متعلق ہے لہذا آج کے مکالمے میں گلگت بلتستان میں پرنٹ میڈیا کی زبوں حالی پر چند باتیں دل سے کروں گا۔
تمہید کے بغیر میں اتنا ہی کہوں گا کہ میں ایک ایسی قوم کا فرد ہوں جو بے مقصد تعریف کے بخار میں مبتلا ہے، اور یہ بیماری اب لاعلاج ہوچکی ہے ۔تنازعہ کشمیر سے منسلک متنازعہ گلگت بلتستان جسے ایک سیاسی نعرے کے تحت ماتھے کا جھومر کہا جاتا ہے لیکن درحقیقت اس خطے میں رہنے والے بیس لاکھ عوام کی حیثیت اُس گھنگرو کی بھی نہیں جسے پہن کر طوائف رقص کرتی ہے۔یہاں جس طرح نظام زندگی کے حوالے سے دیگر مسائل کا پرسان حال نہیں بالکل اسی طرح پرنٹ میڈیا کے نام پر ایک درجن سے زیادہ افراد نے اخبارات کے نام پر دکانیں کھول رکھی ہیں، جسے اگر سڑی ہوئی خبروں کو مسالہ لگا کر فریش کرنے کی فیکٹری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ ان اخبارات میں علاقے کے سُلگتے مسائل اور قومی شناخت کے حوالے سے کوئی خبر نہیں لگتی۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان دکانوں کو زندہ رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے، یہی وجہ ہے کہ اشتہارات کے نام پر لاکھوں روپے ان افراد کو دیے جاتے ہیں ، حالانکہ اسی معاشرے میں مریض دوا نہ ملنے کے باعث ، بروقت ایمبولنس کی سہولت میسرنہ ہونے کے سبب لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اس تمام صورت حال کو دیکھ کر ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوکر آج اس اہم مسئلے کے حوالے سے کچھ باتیں لکھنا چاہوں گا، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر بات کرنا اس کاروبار سے منسلک بہت سے دوست احباب کونا گوار گزرے گا لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ بقول جون ایلیاکہ ۔۔ ۔
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ،
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں۔
عرض یہ ہے کہ اس معاملے سے چونکہ صحافتی نام جڑے ہوئے ہیں لہذا یہ بات پہلے واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ صحافت ایک مقدس پیشے کا نام ہے جسے اگر دیانتداری کے ساتھ عمل میں لایا جائے تو قوموں کی قسمت بدل جاتی ہے ،معاشرہ احترام کرنے پر مجبور ہو جا تا ہے لیکن صحافت کے اس مقدس پیشے کی آڑ میں کوئی کاروبار کرے تو اسے صحافتی طوائف کہتے ہیں، جسے گلگت بلتستان کی اصطلاح میں “جیب بابا” کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک اور بات بھی واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ گلگت بلتستان میں اچھے صحافیوں اور لکھاریوں کی کوئی کمی نہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس تمام صورت حال کے باجود کئی ایسے صحافی بھی ہیں جو ان نام نہاد سرکاری میڈیا سروس کیلئے کام کرتے ہیں لیکن اُن کا بھی شکوہ یہی ہوتا ہے کہ اکثر موقعوں پر مالکان ایسی خبروں کی اشاعت پر مصلحت آمیز رویہ اپناتے ہیں ، جو حکومت وقت، مسلط بیوروکریسی کے خلاف جاتا ہو۔ ایک تازہ واقعہ سنیے ،محکمہ اطلاعات کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے صحافت کو مزید حکومتی تابع بنانے کیلئے اپنے تجربے کی بنیاد پر کنٹرول کرنا چاہا، جس کے سبب گلگت بلتستان میں ایک ہفتہ اخبارات کی سرکولیشن بند رہی حالانکہ یہ مسئلہ مالکان کے مفادات کا تھا کیونکہ کہا یہ گیا کہ پچھلے دو سالوں سے حکومت نے مالکان کو بل ادا نہیں کیا تھا، جس کے سبب اُنہوں نے اخبارات کی اشاعت ہی بند کردی لیکن اخبارات کی بندش پر ہم نے دیکھا کہ عوام نے اس معاملے کو غیر سنجیدگی سے لیا، کیونکہ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ مقامی اخبارات حقیقی معنوں میں قوم کی ترجمانی نہیں بلکہ مالکان کی کیپٹل بڑھانے کیلئے ایک مشین ہے ۔
سوشل میڈیا پر عوام خاص طور پر یوتھ نے مقامی اخبارات کی بندش پر سکھ کا سانس لیا اور یہ بھی مطالبہ کیا کہ بقایا جات سے کوئی کالج یا ہسپتال بنا یا جائے لیکن اخبار مالکان نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اس مسئلے کو اسلام کے صحافتی اداروں میں یہ کہہ کر اُٹھایا کہ گلگت بلتستان کی حکومت نے اخبارات پر پابندی لگائی ہے ۔ اُس اقدام سے مقامی اخبارات کو کافی سپورٹ ملی ،کیونکہ ہمارے ہاں پورا نظام حکومت غیر منتخب وفاقی آقاؤ ں کے ماتحت ہوا کرتا ہے، ایسے میں نہ ماننا یا صفائی پیش کرنا بھی اُن کی شان میں گستاخی سمجھا جاتا ہے، لہذا مریم اورنگزیب صاحبہ کے ایک حکم نامے پر پورا نظام ڈھیر ہوگیا اور محکمہ اطلاعات کے ڈی ڈی کو بیورکریسی کے خلاف مختصر کال ریکارڈنگ کلپ پر عہدے سے برطرف کردیا گیا،اور حکومت میں اتنی بھی ہمت نہ تھی کہ چیف سیکرٹری کے اس حکم نامے کو قرار دے۔ ہمارے ہاں اصل حکومت بیورکریسی کی ہے اور یقیناًمقامی اخبار مالکان اس بات کا ادارک رکھتے ہیں کہ بیورکریسی کبھی نہیں چاہتی کہ مقامی اخبارات قوانین کے غلط استعمال پر کسی لکھنے والے کو موقع دیں،سی پیک میں جس طرح گلگت بلتستان کو اپنے ہی لوگوں کے ذریعے مامو ں بنایا اس پر کوئی رپورٹ شائع ہو،کوئی سرکاری اداروں میں کرپشن اور اقرباء پروری پر لب کشائی کرے اور سب سے بڑھ کر متازعہ خطے کی قانونی شناخت کے حوالے سے نئی نسل کو اگہی دے، ایسا ممکن ہی نہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں نظریات کو بھی مقامی اور غیر مقامی مولوی حضرات کے ذریعے تقسیم کیا ہوا ہے جو مذہب اور مسلک کی بنیاد پر حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔صرف یہ نہیں بلکہ ایسے بھی اخبار مالکان موجود ہیں جنہوں نے ذاتی مفاد کیلئے قومی تشخص اور اس خطے کی تاریخ کے حوالے سے بھی من گھرٹ کہانیاں تاریخ کا حصہ بنا کر نئی نسل کے ذہن خراب کرنے پر کمر بستہ ہیں، اس کام کے عوض یہ لوگ اعزازات وصول کرتے ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ اس قسم کی ہزاروں مثالیں ہیں جو اس وقت گلگت بلتستان کے پرنٹ میڈیاکیلئے نان ایشو ہے لیکن اللہ بھلا کرے کہ جب سے سوشل میڈیا وجود میں آیا ہے، بلاگز نے کام کرنا شروع کیا ہے اُنکی حیثیت عوام اور پڑھے لکھے طبقے کی سطح پر ختم ہوتی جارہی ہے اور یہ صرف گلگت بلتستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا اب ای میڈیا بن چُکی ہے جہاں سوشل میڈیا کی وساطت سے خبر بغیر کسی کاٹ چھانٹ کے عوام تک براہ راست پہنچ جاتی ہے ۔یوں اگر گلگت بلتستان کے تناظر میں دیکھیں تو ان اخبارات کا کام حکمران طبقے کے جھوٹے اعلانات کو شہہ سرخی بنا کر سرکاری خزانے سے اشتہارات کے نام پر تنخواہ وصول کرنے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔لہذا گلگت بلتستان کی نئی نسل کو سوچنے کی ضرورت ہے، مقامی پرنٹ میڈیا میں اپنے خطے کیلئے درد دل رکھنے والے جو صحافی ہیں اُنہیں چاہئے کہ اس نظام کے خلاف کھل کر سامنے آئیں اور اس مقدس پیشے کی حرمت کو بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور اخبار ات کو مالکان کے مالی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے چلانے کی بجائے اس خطے کی صدیوں پُرانی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے تقسیم برصغیر کے بعد جو اس خطے کے ساتھ آج تک کیا جارہا ہے اسے سامنے رکھیں اور ایک نظام تشکیل دیں اور قومی حقوق کے حصول کو اپنا مشن بنائیں کیونکہ بغیر قومی شناخت کے کسی بھی ادارے کی تعریف مکمل نہیں۔ مجھے قومی امید ہے کہ آنے والے وقتوں میں کچھ فرض شناس صحافی اور تعلیم یا فتہ حضرات بھی اس مقدس پیشے کے حوالے سے عوام میں گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے اخبارات کا اجراء کرنے جارہے ہیں اور یقیناًہمارے عوام کی امیدیں صحافتی اقدار کی بحالی اور ذمہ داریوں کے حوالے سے اُن کی طرف مرکوز ہیں۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply