کربلا اور شام کا منظر

احسان اللہ احسان اس وقت ریاست کا اہم ترین مجرم ہے ، جو نا صرف ہزاروں سویلین پاکستانیوں کا قاتل ہے بلکہ سینکڑوں وردی والوں کے خون سے بھی اس کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں ۔دنیا بھر میں اصول ہے کہ جب علی الاعلان ریاست سے بغاوت کرنے والے اور بے گناہوں کا خون کرنے والے پکڑے جاتے ہیں تو ان کو نشان عبرت بنایا جاتا ہے ۔لیکن احسان اللہ احسان کا ایک ٹی وی انٹرویو کروایا جاتا ہے ، اور لگتا یوں ہے کہ ایک سفاک اور انسانیت دشمن کی کریکٹر بلڈنگ کی جا رہی ہے ،کروانے کا لفظ اس لیے لکھا کہ یہ ان کی مرضی سے ہوا جن کی حراست میں وہ موجود ہے ، انٹرویو کرانے والے بھی میری نظر میں مجرم ہیں کہ جنہوں نے ایک سفاک دہشت گرد کو سب سےزیادہ دیکھے جانے والے ٹی وی پروگرام میں بٹھایا اور من چاہے سوالات اپنے ہی ایک اینکر کے ذریعے کروائے ۔
اگر آپ دشمن ممالک کی حکومتوں اور ان کی ایجنسیوں کو کوئی پیغام دینے کا عذر سامنے لاتے ہیں تو جناب وہ آپ پہلے ویڈیو کے ذریعے اپنے مسلز دکھا چکے تھے ۔وہ دہشت گرد بار بار کہہ رہا ہے کہ اس نے خود کو حوالے کیا اسے وہ اپنی طاقت اور آپ کی کمزوری کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔
مجھے بس ایک ہی بات پوچھنی ہے کہ یہ انٹرویو کروانے والے تب بھی اسی طرح کی پالیسی اپناتے اگر ان کا کوئی انتہائی پیارا ان 60 ہزار بے گناہ اوربے قصور سویلین میں شامل ہوتا کہ جو ان کی درندگی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ یہ انٹرویو کرانے والوں کو اندازہ نہیں تھا کہ آرمی پبلک سکول پشاور کے شہیدء بچوں کی مائیں جب اپنے اپنے لخت جگر کے قاتل کو مسکراتے دیکھیں گی اور ایک پلانٹڈ انٹرویو میں اس کی تعریفیں سنیں گی تو ان کےدل بند ہو جائیں گے، ریاست اورریاستی اداروں سے ان کا اعتماداٹھ جائے گا۔
ہاں شاید تاریخ کے ورق پلٹیں تو اس کی نظیر چودہ سوسال قبل ملتی ہے کہ جب کربلا سے شام تک سفر کے دوران آل رسول ﷺکی پردہ دار ماوں کے سامنے انکے بیٹوں کے قاتل لائے گئے تھے کہ جو قہقے لگاتے تھے مسکراتے تھے اور مائیں خون کے آنسو روتی تھیں ۔
لیکن آپ تو ایسے نہ تھے ۔پھر یہ سب کچھ کیوں؟ ایسے کیا کہ جس نے دل و دماغ کو عجیب کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے ، اور کربلا و شام والا منظر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا ہے۔

Facebook Comments

سید عون شیرازی
سید عون شیرازی وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے مشہور صحافی اور مصنف ہیں ، 20 لفظوں کی کہانی لکھتے ہیں جو اب ایک مقبول صنف بن چکی ہے،اردو ادب میں مختصر ترین کہانی لکحنے کا اعزاز حاصل ہے جس کا ذکر متعدد اخبارات اور جرائد کر چکے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply