زندگی

ایک ننھا سا بیج بویا جاتا ہے ۔ باغبان ، مالی یا رکھوالا اس کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ زمین کی کوکھ میں پرورش پا کر وہی بیج پودا بن جاتا ہے۔ جیسا بیج بویا جاتا ہے اسی جنس کا پودا نکلتا ہے۔ آم کی گٹھلی سے بیری کا درخت کبھی پیدا نہیں ہوتا۔ زمین جیسی بھی ہو، فطرت کبھی نہیں بدلتی۔ ہر پھول کی قسمت میں کہا ں ناز عروساں کے مانند ضروری بھی نہیں کہ ہر نباتات کو کوئی رکھوالا بھی میسر ہو۔ جنگل بیاباں پہاڑوں میدانوں اور صحراؤں میں سبزہ ہریالی پودے درخت اور جڑی بوٹیاں اسی بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ کوئی اور ہستی بھی ہے جو ان کی خالق ہے اور نگہداشت رکھتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وقت گزرتا ہے وہی پودا ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ سرد راتوں، گرم دوپہروں، آندھیوں اورطوفانوں کا مقابلہ کرنے میں اسے کوئی دقت نہیں ہوتی۔ پرندے اس کی آغوش میں پنا ہ لیتے ہیں۔ وہ ہر موسم میں جھوم جھوم کر اپنا جوش جوانی دکھاتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کی چھال پرانی ہو جاتی ہے طول عمر سے اسکی کمر جھک جاتی ہے۔ کیڑے مکوڑے اس کے تنوں کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ پرندوں کے گھونسلے اسے بوجھ محسوس ہونے لگتے ہیں۔ پیٹ کا ایندھن بجھانے کے لئے کلہاڑے اور آریوں سے اس بوسیدہ درخت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں اور ایک وقت ایسابھی آتا ہے کہ اس قطعہ زمین پر اس کا نام و نشان بھی مٹ جاتا ہے۔ جو کبھی ایک صرف میں کی علامت ہوا کرتا تھا وہ صفحہ ہستی سے ہی مٹ جاتا ہے۔ لیکن ہاں اسی درخت کے بیج ادھر ادھر یہاں وہاں کہیں نا کہیں ایک اور شکل میں اس کی ہونے کا مظہر ضرور ہوتے ہیں۔
بقول جون ایلیا
بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے
رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے
یہ خراباتیانِ خردِ باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے
کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم
بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply