ظفر اقبال کے اعتراضات کا جواب۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

جناب ظفر اقبال کا کالم نیچے پوسٹ کیا جا رہا ہے۔ موصوف نے اس بار تو چھ سات نکتوں کو توڑ مروڑ کر صاف بیانی کی جگہ صریحا ً دروغ گوئی  سے کام لیا ہے۔ میں نکتہ بہ نکتہ ان کو فیس بک دوستوں کے سامنے پیش کر رہا ہوں کہ میں ان کے کالم کے جواب میں روزنامہ “دنیا” میں ایک کالم نہیں لکھ سکتا اور اخبار کے قارئین کے سامنے ان کی نپی تلی ، لیکن جھوٹ پر مبنی باتوں کا وہاں جواب دینے سے قاصر ہوں، اور حالانکہ اخبار کے قاری میرا یہ جواب نہیں دیکھ سکیں گے ، کم از کم میرے دوست تو دیکھ سکیں گے۔

نمبر ایک : وہ لکھتے ہیں : “ان کا اعتراض یہ بھی ہے کہ میں نثری نظم کے مصرعوں کو سطریں کیوں کہتا ہوں۔ اور مصرع کیوں نہیں ۔۔۔۔۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

جواب۔ جی نہیں، حضور  آپ الٹ پھیر میں بھٹک گئے۔۔۔با ت اس کے عین الٹ تھی، میرا اعتراض یہ نہیں تھا بلکہ اس کے عین الٹ تھا کہ آزاد نظم میں ایک سطر کو مصرع نہ کہا جائے ، سطر کہا جائے میں نے آج تک ایک بھی نثری نظم نہیں لکھی ۔۔۔ میری چھ  سو سے کچھ اوپر سبھی نظمیں آزاد ہیں، کسی نہ کسی بحر میں ہیں، اور با قاعدگی سے تقطیع کی جا سکتی ہیں۔ یہ نظمیں سترہ (۱۷) شعری مجوعوں میں شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ بیک وقت انڈیا اور پاکستان سے مطبوعہ ہیں۔ ان نظموں کے بارے میں جن احباب نے مضامین تحریر کیے ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، کالیداس گپتا رضا ، گیان چند جین ، ریاض صدیقی ، فہیم اعظمی، وزیر آغا ، انور سدید، حامدی کاشمیری، بلراج کومل، ڈاکٹرعتیق اللہ، ڈاکٹر شکیل الرحمن، نضیر احمد ناصر، تارا چرن رستوگی، سید خالد حسین، ڈاکٹر احمد سہیل، پرہفعسر قیصر نجفی۔ حقانی القاسمی، علامہ ضیا حسین ضیا، (انٹرویو) ڈاکٹر رشید امجد، علی محمد فرشی، انوار فطرت ۔۔۔ اور اندازًاً دس دوسرے احباب!
نمبر ایک۔ (جاری ہے) ۔۔ ان کے کالم کے پہلے دو پیراگراف نثری نظم کے حال اور مستقبل سے متعلق ہیں ۔ جس کا میری شاعری سے کوءی تعلق نہیں ۔۔۔
نمبر ایک (جاری ) دوبارہ لکھ رہا ہوں۔ موصوف کے کالم کے پہلے دو پیراگراف اس فرصی قیاس سے چلتے ہیں کہ میری نظمیں “نثری” ہیں، اور لگاتار نثری نظم، نثری نثم کی گردان کرتے ہوءے مجھ پر اعتراض کیے جاتی ہیں۔ جبکہ میری نظمیں سبھی مختلف بحور میں خوبصورتی سے (فریم کے اندر تصویر کی طرح) جڑی ہوئی ہیں۔ سارا قصیہ ہی موصوف کی ان نظموں کو نثری نظمیں قرار دینے سے ہے۔ ۔۔ یعنی حیرت ہوتی ہے کہ ایک غلط قیاس پر مبنی ایک مفروضہ لے کر موصوف میری مٹی پلید کرتے رہے ہیں۔
اور یہ صرف اس لیے ہوا کہ موصوف “رن آن” سطور کے چلین کو نہیں جانتے (اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں!)
یہ  د وبارہ لکھ رہا ہوں ۔۔۔ 1952میں جب میں نے ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا تھا تو “حدایق البلاغت” کو جیسے گھول کر پی لیا تھا۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں عروض کا صرف معمولی طالبعلم ہی نہیں، کسی حد تک ماہر بھی ہوں۔ فارسی اور عربی جانتا ہوں۔ انگریزی کے علاوہ یورپ کی کچھ دیگر زبانوں کی شد بد بھی رکھتا ہوں اور ان کے عروضی نظم سے واقف ہوں۔
نمبر ایک (جاری ہے)
موصوف میرے بارے میں لکھتے ہیں۔ “آپ نے فارسی عروض پر بھی زبانِ، طعن دراز کی ہے۔ “زبان درازی” ایک ہتک آمیز محاروہ ہے۔ میں نے تو شاید کی ہو یا نہ کی ہو، محترم ، آپ ضرور کر رہے ہیں۔
جی نہیں، میں نے یہ کلیم نہیں کیا۔ صرف یہ کہا ہے کہ ہمارے  ہاں پنجابی زبان میں (جو ہماری مادری زبان ہے) قدیم پنگل کا رواج موجود تھا، جس میں شیخ بابا فرید اور دوسرے صوفی شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ہے۔ دامودر کی ہیر اس پنگل میں پیش کی گئی۔ وارث شاہ کی ہیر کو آپ “فاعلات فعلن، فاعلات فعلن” کی تکرار سے تقطیع کر سکتے ہیں، لیکن سینکڑوں سطروں میں آپ کو پھر پنجابی پنگل کا سہا را لینا پڑے گا۔
میری ان سے پھر گذارش ہے کہ اپنے ذہن کی کھڑکیا ں کھولیں۔ رن آن سطور کے چلن کو سمجھیں۔ اگر کہیں اور نہیں تو اپنے عزیز علامہ ضیاء حسین ضیاؔ (فیصل آباد) کے ہاں سے مطبوعہ میرے بارے میں رسالہ “زنگار” کا طویل انٹریو (دو سو سے اوپر صفحات۔ اردو کا سب سے طویل انٹرویو) ہی دیکھ لیں۔ اگر ، حضور، آپ کی آنکھیں کپاٹ سے نہ کھل جائیں، تو شاید (پھر بھی میرا قصور ہی تسلیم کیا جائے گا)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply