داعش کا کوئٹہ میں مسیحیوں پر حملہ۔۔۔ثاقب اکبر

(15 اپریل 2018ء بروز اتوار) شدت پسند تنظیم جو اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلواتی ہے اور جو داعش کے نام سے منفور جہاں اور بدنام زمانہ ہے، نے کوئٹہ میں عیسٰی نگری پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ اس حملے میں پاکستان کی مسیح برادری سے تعلق رکھنے والے دو افراد جاں بحق اور سات زخمی ہوگئے۔ یہ لوگ کلیسا سے عبادت کرکے نکل رہے تھے کہ داعشی سفاکوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ داعش نے موبائل ایپ ٹیلی گرام پر جاری کئے گئے اپنے ایک پیغام میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ”دولت اسلامیہ خراسان“ کا عنوان اختیار کرنے والے پاکستان اور افغانستان میں موجود نیٹ ورک نے ٹیلی گرام پر اپنے پیغام میں کہا ”خلافت کے سپاہیوں نے کوئٹہ میں مسیحیوں کے گرجا گھر پر حملہ کیا۔“ یہ حملہ بروری روڈ سے متصل عیسٰی نگری میں کیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسی مہینے کے آغاز میں کوئٹہ ہی میں مسیحی برادری پر ایک اور حملہ ہوچکا ہے، جس میں ایک خاتون سمیت کم از کم چار افراد واصل بحق ہوئے اور ایک بچی زخمی ہوگئی۔ اسلام کے نام پر قتل و قتال کا یہ سلسلہ گذشتہ چار دہائیوں سے جاری ہے۔ نام بدل بدل کر مختلف گروہ یہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ جدید تاریخ اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ ہر نئے نام سے سامنے آنے والا گروہ سفاکی اور درندگی میں پہلے سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ ان گروہوں سے مسلمان محفوظ ہیں اور نہ غیر مسلم۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو اسلام کا نام لیوا اور اپنا مقصد اسلامی خلافت کا قیام قرار دیتے ہیں۔ داعش کے تازہ بیان میں بھی قاتلوں کو خلافت کے سپاہی قرار دیا گیا ہے۔

کس کی خلافت اور کیسی خلافت؟ کون سا اسلام اور کس کا اسلام؟ اگر اسلام قرآن اور سنت نبوی کا نام ہے تو پھر ان کا یہ کردار کسی صورت میں اسلامی کہلانے کے لائق نہیں اور اگر خلافت سے مراد اسلامی حکومت کا کوئی تصور ہے تو پھر اسلام ایسی حکومت کے تصور سے بیزار ہے۔ قرآن حکیم میں فرمایا گیا ہے:” مَن ± قَتَلَ نَف ±سًا بِغَی ±رِ نَف ±سٍ اَو ± فَسَادٍ فِی ال ±اَر ±ضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِی ±عًا(مائدہ:۲۳)”جس نے کسی ایک انسان کو بغیر اس کے کہ اس نے کسی انسان کو مارا ہو یا زمین پر فساد برپا کیا ہو، قتل کر دیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے سب انسانوں کو قتل کر دیا ہو۔“قابل غور بات یہ ہے کہ اس آیت میں مسلمان یا مومن کے قتل کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ ایک بے جرم و خطا انسان کے قتل کو ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے مذہبی لٹریچر میں ذمی کا لفظ ان غیر مسلموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، جو ایک معاہدے اور قانون قاعدے کے مطابق کسی اسلامی ریاست میں زندگی بسر کر رہے ہوں۔ وہ ریاست کو سرکاری واجبات ادا کرتے ہیں اور ریاست ان کی جان و مال کی حفاظت کرتی ہے۔ پاکستان اور دیگر مسلمان ملکوں میں رہنے والے غیر مسلم، ہر ملک کے قوانین و قواعد کے مطابق اس میں زندگی بسر کرتے ہیں اور ہر ریاست اپنے آئین و قانون کے مطابق ان کے حقوق کی محافظ ہے۔ پاکستان میں بسنے والے مسیحی ہوں یا کسی اور دین و مذہب سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم، سب ”معاہد“ کی تعریف میں آتے ہیں۔ وہ ریاست کے قابل احترام شہری ہیں اور ان کی جان و مال کی حفاظت ریاست کے ذمے ہے۔ انہیں اسلامی اور ملکی قوانین کے مطابق اپنی مذہبی رسوم ادا کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ اس آزادی کا چھیننا اور ان کے درپئے آزار ہونا اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے اور پاکستان کے آئین و قوانین کے بھی۔ لیکن داعش، القاعدہ، بوکوحرام اور ان جیسی دیگر تنظیموں کو اس سے کیا کہ اسلام کیا کہتا ہے اور کسی ملک کا قانون اپنے شہریوں سے کیا عہد کرچکا ہے، جس کی پاسداری ضروری ہے۔

نبی کریم نے نجران کے مسیحیوں سے جو معاہدہ کیا، امت کو اپنے بعد کے لئے بھی اس معاہدے کا پابند قرار دیا۔ امام علیؑ کے بارے میں ایک چشم کشا واقعہ تاریخ میں نقل ہوا ہے، جس کے مطابق جب آپ نے کوفہ میں ایک بوڑھے یہودی کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو آپ نے سوال کیا کہ یہ میری حکومت میں بھیک کیوں مانگ رہا ہے؟ اس نے کہا یاعلی! کل تک مجھ میں قوت تھی، میں کام کرتا تھا، لیکن اب مجھ میں قوت نہیں رہی۔ امام نے فرمایا: اس کی تمام ضرورتوں کو بیت المال سے پورا کیا جائے اور اسے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ کسی نے کہا یاعلی! یہ یہودی ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ ایک انسان ہے جب تک اس کے جسم میں قوت تھی اس نے معاشرے کی خدمت کی ہے، اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ آپ کا یہ طرز عمل نبی اکرم کی تعلیمات کے عین مطابق تھا، جنھوں نے فرمایا کہ جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا تم زمین والوں پر رحم کرو، تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔ ہمارے ہاں یہ مشہور عوامی شعر اسی حدیث کی حکایت پر مشتمل ہے:
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر
داعش کا تصور خلافت اگر حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کے تصور حکومت پر مشتمل ہوتا تو بھی وہ ہرگز یہ کچھ نہ کرتے، جو اس وقت کر رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو بکرؓ نے کفار کے مذہبی معاملات سے متعلق جو معاہدہ لکھا اس میں ہے:”ان کے چرچ اور کلیسے منہدم نہیں کئے جائیں گے اور نہ کوئی ایسی عمارت گرائی جائے گی، جس میں غیر مسلم ضرورت کے وقت دشمنوں کے حملہ کے موقع پر قلعہ بند ہوتے ہیں۔ ناقوس اور گھنٹیاں بجانے کی ممانعت نہیں ہوگی اور نہ تہواروں کے موقع پر صلیب نکالنے سے روکے جائیں گے۔”

اس طرح کے احکام نبی کریم کی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔ چنانچہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا:”خبردار جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا، اس کا حق مارا، اس کی طاقت سے بڑھ کر اس پر بوجھ ڈالا یا اس کی دلی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اس سے چھین لی تو قیامت کے دن میں اس کے مقدمے کی پیروی کروں گا۔“انہی تعلیمات اور ان میں موجود انسانی جذبے کے پیش نظر ہم کوئٹہ میں مارے جانے والے اور زخمی ہونے والے اپنے مسیحی بھائیوں کے لئے اظہار رنج و غم کرتے ہیں۔ ان کے غم کو ہم اپنا غم سمجھتے ہیں۔ ہم ان کی خدمت میں ہدیہ تعزیت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس امر کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ ان پر حملہ کرنے والے اسی طرح مسلمانوں کا بھی قتل عام کرنے سے دریغ نہیں کرتے، جس طرح وہ مسیحیوں کو قتل کرنے سے نہیں چونکے۔ اس لحاظ سے ہمارا اور آپ کا غم ایک ہے، آپ مشرق و مغرب میں رہنے والے تمام مسیحیوں سے کہیں کہ آیئے مل کر داعش جیسے ظالم گروہوں کے خلاف ایک ہو جائیں اور ان کے خلاف بھی صف آراء ہو جائیں، جنھوں نے داعش جیسی تنظیمیں تخلیق کی ہیں، انہیں پروان چڑھایا ہے اور ان کی تربیت کی ہے اور آج بھی انہیں وسائل فراہم کر رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارے خطے میں داعش کو کون لا رہا ہے اور کون ان کا پشت پناہ ہے۔ آیئے انسانیت کے تمام سفاک قاتلوں کے خلاف ایک ہو جائیں، چاہے انہوں نے مسلمانوں جیسا نام رکھا ہو اور چاہے مسیحیوں جیسا اور چاہے کسی اور مذہب و ملت کے ماننے والوں سے ملتا جلتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply